کسی زمانے میں تعلیم کے عمل میں استاد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق تعلیم میں مرکزی حیثیت طالب علم کو دی جاتی ہے۔ نصاب طریق تدریس اور تعلیم کے دیگر تمام تر عوامل اسی کے گرد گھومتے ہیں اور اسی کی ضروریات و نفسیات کے مطابق ڈھالے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود استاد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان تمام عوامل کو مربوط کر کے انہیں طلبہ کے لئے کارآمد بنانے والی ہستی بالآخر استاد ہی ٹھہرتی ہے۔ اسلام میں تو استاد کو ویسے بھی بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ والد سے بھی زیادہ کہ حقیقی والد تو انسان کو بلندیوں سے پستیوں کی طرف لانے کا سبب بنتا ہے۔ یعنی عالم ارواح سے عالم دنیا میں لاتا ہے اور استاد اسکے برعکس اسے پستی سے بلندی کی طرف( بشرط نیک اعمال) زمین سے آسمان کی طرف یعنی جنت میں لے جانے کا موجب بنتا ہے۔ اسی لئے اسلام میںمعلم کو بہت زیادہ معزز و محترم شخصیت قرار دیا گیا ہے اور اسے وارث انبیاءکا درجہ دیا گیا ہے۔ استاد ہی علم کو پھیلانے کا منبع و مرکز ہے اس لئے کسی بھی معاشرے میں اسکی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
اس تناظر میں دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں استاد کا درجہ ہے کیا اور اسے کیا ہونا چاہئے۔ یہاں پیشہ معلمی کو سب سے کم تر اور حقیر جانا جاتا ہے حصول ملازمت کی آخری ترجیح کے طور پر اسے اپنایا جاتا ہے۔ مشہور ہے جو کچھ نہیں بننا چاہتا وہ ٹیچر بن جاتا ہے۔ اگرچہ آج کے دور میں حصول ملازمت کے حوالے سے یہ شعبہ بھی اوور کرا¶ڈڈ ہو چکا ہے۔ لاکھوں تربیت یافتہ اساتذہ ڈگریاں سینوں پر سجائے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ انہیں روزگار میسر نہیں ہے۔ کسی دور میں میٹرک پی ٹی سی کو ملازمت مل جاتی تھی اولاً آج پرائمری سکول ٹیچر کی بنیادی استعداد ایم اے‘ بی ایڈ کر دی گئی ہے اور اس سے کہیں بہتر تعلیمی استعداد ایم ایڈ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے حامل افراد ڈگریاں لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ملا زمتیں کارِ دارد ہیں۔ خصوصاً آرٹس کی ڈگریوں کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ ان کے لئے ملازمتیں خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ صرف سائنس گریجویٹس افراد کے لئے گنتی کی ملازمتیں میسر ہوتی ہیں اور اس کے لئے بھی انٹری ٹیسٹ اور سخت قسم کے میرٹ کے پراسس سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ حال اس پیشے کا ہے جو آخری ترجیح ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ لوگ اس پیشے کو عارضی طور پر اپناتے ہیں ‘ اچھی سروس کی تلاش میں رہتے ہیں اور جونہی کوئی اچھی سروس میسر آتی ہے پیشہ معلمی کو خیرباد کہہ کر چلے جاتے ہیں۔ جہاں ٹیچر کی Retention ہی نہیں ہو گی اس پیشے کی اچھے افراد کیلئے کشش ہی نہیں ہو گی اس شعبہ میں کیونکر بہتری آ سکتی ہے۔ اس لئے ٹیچنگ کے شعبہ میں سب سے پہلے اس قباحت کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس پیشہ کو پرکشش بنایا جائے گا۔ کہنے کو شعبہ تعلیم میں اچھے گریڈ ہیں لیکن معاشرے میں ٹیچر کی وہ اہمیت نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ اس لئے ٹیچر کی دلچسپی قائم نہیں رہتی۔ یہ اہل دانش کی سوچنے کی باتیں ہیں کہ وہ اس شعبے میں کیسے دلچسپی اور کشش پیدا کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ٹیچنگ کے شعبے میں آنے والے جوہر قابل کو کم از کم دس سال تک کے لئے پابند کر دیا جائے کہ وہ اتنا عرصہ خدمات سر انجام دے گا اور اپنی لیاقت‘ استعداد اور خداداد صلاحیتوں سے نسل نوع کو فیض یاب کرے گا۔
پیشہ معلمی کو سی ایس ایس کی طرز پر جاذب نظر کیڈر کی ضرورت ہے اور اسی طرز پر چنا¶ اور تربیت ہونا چاہئے۔ سب سے زیادہ زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ ٹیچر جو منتخب ہواس میں جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو‘وہ اپنے پیشے سے لگن‘ محبت‘ دلچسپی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھے۔ وہ اپنے تئیں اس شعبہ کے لئے زندگی وقف اور قربان کرنے کے جذبے سے سرشار ہو ۔ ایسے چند ہزار اساتذہ پیدا کر دئے جائیں تو ہم قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کا معاشرے میں سٹیٹس کیا ہونا چاہئے یہ سب سے اہم بات ہے جو اساتذہ کو اس پیشے کی طرف کھینچ لانے میں مقناطیس ثابت ہو گی۔معاشرے میں سب سے کم ترین درجے کی مخلوق یہی ہے جس سے ہر وہ کام لیا جاتا ہے جو دوسرا کوئی نہیں کرتا۔ معاشرے میں اس کی ذرا عزت نہیں ہے۔ آسائشات میسر نہیں جو معاشرے میں ایک خوشحال شخص کی پہچان ہیں۔ خصوصاً جوڈیشری سے وابستہ افراد کی تنخواہیں تمام محکموں سے تین گنا زیادہ ہیں حتیٰ کہ ایک چپڑاسی بھی ایک استاد کی نسبت زیادہ خوشحال اور باوقار ہے اور تو اور کچھ پولیس نے وابستہ لوگ جو معاشرے میں کرپٹ ترین طبقہ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ان کی تنخواہیں دوسرے محکموں سے دوگنا ہیں۔ استاد کے معاشی حالات کو بہتر بنانا اسے اس کے کنبے کو بنیادی ضروریات وافر مقدار میں مہیا کرنا اور سوسائٹی کی عام ضروریات جس سے فرد کی معاشی و معاشرتی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ اسے ٹیچر کو بہم پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ٹیچر کو معاشرے کا اہم ترین فرد ڈیکلیئر کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے سوشل سٹیٹس ہی اس کاسیمبل ہوتا ہے۔ اسکی تنخواہ اور مراعات کو سب سے زیادہ بہتر اور پرکشش بنانا ہو گا۔ تبھی لائق‘ قابل ترین اور جذبہ خدمت سے سرشار افراد اپنی خوشی سے اس پیشہ کی جانب راغب ہوں گے۔ اگرچہ یہ کام خاصا مشکل ہے کہ آرمی کے بعد ملک میں سب سے زیادہ تعداد ٹیچرز کی ہے اور اس کے لئے خاصا فنڈدرکار ہے۔ تاہم یہ کام ہمیں ہر حال میں کر گزرنا ہو گا۔ یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے آئندہ نسل کو تیار کرنا ہے اور ہر شعبے میں اہل افراد کو پروڈیوس کرنے ہیں۔ یہ ہماری بنیاد ہے اور بنیاد کی مضبوطی ہی سے عمارت کی پختگی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔