کھانے پینے کے معاملات سے ہٹ کے ٹماٹروں اور انڈوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ ہمارے سیاسی لوگوں کی ہی مہارت ہے کہ کب ان کا استعمال بہتر ہے اور قابل قبول ہوتا ہے اور کب انڈوں اور ٹماٹروں کی قربت ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اور انکو کوسوں دوررکھا جانا ہی بہتر ہے حالات کے بدلتے تیور دیکھ کر لگتا ہے کہ ٹماٹروں نے اس مرتبہ ’سیاسی ہیچری کے پروردہ‘ افراد کے ہاتھوں بے عزت نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ ٹماٹروں کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ جس طریقے سے وہ ماضی میں اپنے حریفوں کو پھچاڑنے کے بعد ان کی چٹنی بنا کر جس بے دردی سے روندتے رہے ہیں اس کی مثال تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی کیونکہ اس ’ظلم‘ کو ابھی تک کسی نے بھی حقیقی معنوں میں قرطاس پر لانے کی جرات نہیں کی۔ ویسے یہ حسن اتفاق تو نہیں کہ جن لوگوں نے موجودہ ٹماٹروں کو سیاسی ہیچری سے نکال کر ٹماٹر بنایا آج لگتا ہے وہی ان ٹماٹروں کی کیچپ بنانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جارہا ہے کہ کیچپ میں سٹارچ کس تناسب سے ڈالا جائے تاکہ اگر مستقبل میں بھی کسی ٹماٹر کی چٹنی یا کیچپ بنانی پڑے توعوام کے علم میں ہو کے ماضی میں ان کے اجزائے ترکیبی کیا تھے۔ ویسے تو جن ٹماٹروں کی چٹنی بنائی جارہی ہے اس کے صحتمند اورسردارٹماٹر ماضی میں چٹنی اور کیچپ بنانے کے اجزائے ترکیبی میں شامل رہے ہیںاور انہی اجزاءکے سبب ملک میں ان کی حکومتی فصل کئی سال تک سرسبز و شاداب رہی مگر اب ان کی فصل کو کیوں ’امریکن سنڈی‘ نگل رہی ہے۔
ٹماٹروں کے اتحاد کے باعث جس طریقہ سے اس کے نرخ میں اضافہ ہوا ہے اس بات سے عوام کو اب اس زعم میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہر وقت ان کی حفاظت کا دم بھرنے والے قائدین اور افسران ٹماٹروں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں بے بس کیوں نہ ہوتے ٹماٹر تو تپتی دھوپ اور سخت سردی میں بھی حوادث زمانہ سے لڑ کر جوان ہوتا ہے مگر ہمارے رہنما اور افسران کا تو دھوپ یا سخت محنت سے واسطہ ہی نہیں ہے وہ تو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے بیٹھے ٹماٹروں کی طرح سرخ اور گول مٹول ہوجاتے ہیں۔ ماشاءاللہ ٹماٹر کی طرح سرخ نظر آنے والے ہمارے سابق وزیراعظم نوازشریف کو عدالتوں کے چکر لگوا کرجس طرح ان کے چہرے کی سرخی واپس لئے جانے کی کوششیں نظر آرہی ہیں اس سے لگتا ایسے ہے کہ اب ہیچری والوں نے نئی پراڈکٹس کو مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ کرلیا ہے اورچند ناعاقبت اندیشوں بھی حالات کی سنگینی کو جانے بغیر ایوان اقتدار میں آنے کے لئے تلملا رہے ہیں اور مستقبل کے ان ٹماٹروں کے علم میں نہیں ہے کہ کسی بھی وقت ان کی بھی چٹنی بنائی جاسکتی ہے وہ سکتا آنے والے وقت میں چٹنی کے اجزائے ترکیبی مختلف ہوں مگر یہ یقین ہے کہ بنے گی چٹنی ہی۔ ویسے توکسی پر غصہ نکالنے کے لئے عموماً ٹماٹر یا انڈے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر ہیچری یا چکن کے بزنس کی وجہ سے چونکہ مرغیوں کا ایک سیاسی گھرانے سے اچھا خاصاپیار بڑھ گیا ہے اس لئے ناعاقبت اندیشوں کو امسال انڈے برسانے کی سہولت تو دستیاب نہیں ہوگی کیونکہ مرغیاں زبان دے چکی ہیں کہ وہ نمک حلالی کرتے ہوئے صرف اور صرف ”انصاف“ پر مبنی بات کا ہی ساتھ دیں گی اور اس انصاف کی وجہ سے اب مرغیوں میں بھی تبدیلی آچکی ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹ اپنی مرضی سے فروخت کرنے کے جملہ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں ان پر پراڈکٹ کی فروخت پر پابندی کے حوالے سے کوئی بھی دھاندلی کا الزام نہیں لگا سکتا ویسے بھی اگر کسی نے الزام لگایا تو وہ مرغیوں کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھر سکے گا جس کی وجہ کچھ عرصہ بعد آنے والی سردی ہے اور سردی کے موسم میں بیگمات کو فیملی کے لیے انڈے لازمی درکار ہوتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہوش سے کام لیا جائے اور مرغیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے پہلی اپنی بساط بھی دیکھ لی جائے پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی اورسخت جاڑے میں انصاف کے دلدادہ لوگوں کو گرمائش کے لئے انڈے بھی دستیاب نہیں ہوں گے پھر کسی ہیچری والے کی بھی سفارش کام نہ آئے گی۔ رہی بات ٹماٹروں کو تو ان کا ریٹ تو حکومت کے قابو میں بھی نہیں آرہا ہے اوراگران کے خراب ہونے کا ڈر نہ ہوتولوگ امریکی ڈالر کی بجائے ٹماٹرپر سرمایہ کاری کرنا زیادہ مناسب خیال کریں۔ہیچری والوں اورنئے ٹماٹروں کے الحاق کا ملک اورقوم کو کیا فائدہ ہوگا اس کے لئے دردر کی خاک چھاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالات گواہی دے رہے ہیں کہ اس مرتبہ پرانے ٹماٹروں کی صرف چٹنی بنے گی۔ویسے تو ہم زرعی ملک ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ تیزی سے پھیلتے ہوئے دولت جمع کرنے کے بخار نے زراعت کو صرف‘زر’تک ہی محدود کردیا ہے اسی لئے تو ٹماٹروں میں اتنی جرات پیدا ہوئی کہ انہوں نے اپنا قد چکن سے بھی دراز کرلیا اور ایوان اقتدار کے ائیر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر ٹماٹر بن جانے والے افراد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا۔ یہ تو بھلا ہو کوکنگ شوز کا جنہوں نے عوام کو بتا رکھا ہے کہ دہی اور کچھ حد تک املی ٹماٹر کے متبادل کے طور پر استعمال ہوسکتے ہیں لیکن ابھی تک عوام اس بات کا راز نہیں پا سکے کہ اگر نااہل قرار دیا جانے والا شخص اپنے ہی حواریوں کی مدد سے اہل قرار پاکر پارٹی کی صدارت کرسکتا ہے تو پھر ٹماٹروں کے بغیر پکنے والی اس سیاسی ہانڈی میں انصاف جیسے لفظ کا کیا مطلب ہوگا کیا درجنوں سرخ ٹماٹر مل کر یہ مطالبہ کرسکیں گے کہ چونکہ ان کا ساتھی سیب سے بھی زیادہ سرخ ہے لہذا اسے سیب کا درجہ دیتے ہوئے عوام کو بھی اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ سیب کی جگہ سرخ ٹماٹر کو دیں ۔