امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے اپنے عہدہ کا چارج سنبھالا ہے پاکستان امریکہ تعلقات کئی وجوہات کی بناءپر مختلف چیلنجز سے دوچار ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان جنوبی ایشیاءاور مڈل ایسٹ میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ملک چلا آ رہا ہے۔ لیکن حالات کے جبر نے صورت احوال کو یکسر تبدیل کرکے جو تازہ ترین سیاسی دفاعی اور اقتصادی ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اس نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے گراف کو جس قدر نچلی حد تک پہنچا دیا ہے۔ وہ پہلے کبھی نہ تھی میں نے اس موضوع پر جائزہ لینے کے لئے گزشتہ جمعہ کے کالم میں سابق وزیر خارجہ جناب خورشید محمود قصوری کے ساتھ پاکستان نیشنل فورم میں ایک نشست کا احوال پیش کرتے ہوئے اس کی مزید تفصیلات آج کے کالم میں تحریر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن جیسا کہ احباب جانتے ہیں گزشتہ ہفتہ کے دورانیہ میں پاکستان کے افق پر امور داخلہ اور امور خارجہ سے متعلقہ جو طوفان رونما ہوئے انہوں نے ایک بحران کیفیت پیدا کررکھی ہے۔ اس کے ہر پہلو پر ایک کالم درکار ہے اور راقم کے پاس SPACE محدود ہے اس لئے میں نے خارجہ پالیسی کے چیلنجز اور OPPORTUNITIES کے بارے میں کچھ عرض کرنے کے لئے قلم اٹھایا تو بریکنگ نیوز اور اخباری ہیڈ لائنز نے میری توجہ اس خبر کی طرف موڑ دی کہ پاکستان کے نئے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف صاحب اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کرنے اور درپیش چیلنجز کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس سلسلے میں دو طرفہ تجاویز پر امریکی دفتر خارجہ کے مختلف سطح کے عہدیداروں کے علاوہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے دیگر سول ملٹری احکام سے بھی رابطے کرینگے جن کی کوئی پہلے سے طے شدہ تفصیلات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ البتہ واشنگٹن کے باخبر حلقوں کے حوالے سے یہ اشارے امریکی میڈیا نے ضرور مہیا کئے ہیں کہ نیا امریکی صدر دنیا کے کسی بھی حصہ کے لئے خواہ وہ یورپ ہو یا مڈل ایسٹ جنوبی ایشیاءہو یا وسطی ایشیاءچین یا جاپان ہو یا جنوبی اور شمالی کوریا صدر ٹرمپ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ محکمہ دفاع کے پینٹاگون میں بیٹھے ہوئے سینئر فوجی کمانڈروں سے پہلے ادوار سے بڑھ کر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اس میں بھارت پاکستان افغانستان اور وسطی ایشیاءسے مستقبل کی سٹرٹیجک پالیسی خاص ترجیحی سلوک کی حامل ہے ایک بات یقینی ہے کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے موجودہ گلوبل اور علاقائی حالات کے پس منظر میں پاکستان کے وزیر خارجہ سے واشنگٹن میں ملاقات کیلئے جس وقت کا انتخاب کیا ہے وہ نہایت اہم ہے اور ہر امریکن عہدیدار وہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ڈپلومیٹ ہو یا پینٹاگون کا فوجی عہدیدار اس نے خواجہ صاحب سے ملاقات کے لئے پورا ہوم ورک کیا ہو گا تاکہ وہ پاکستان کے نئے وزیر خارجہ کی ہر زوایہ سے جانچ پڑتال کر سکے۔ میری دعا ہے کہ خواجہ صاحب کا یہ دورہ امریکہ پاکستان کے اعلیٰ ترین مفاد کو مقامی طور پر اور سٹرٹیجک سطح پر صحیح منزل کی طرف آگے بڑھانے میں کامیاب ثابت ہو گا۔
گزشتہ ہفتہ عشرہ کے دوران اندرونی سطح پر بہت سے غیر معمولی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ پانامہ کیس میں عدلیہ کی طرف سے پانچ سینئر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے متفقہ فیصلہ کے نتیجہ میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دیدیا گیا تھا اور مزید جوڈیشل کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے خلاف کئی ریفریسز نیب لاءکے تحت کارروائی کے لئے نیب عدالت کو متعلقہ مقدمات کا ریکارڈ نیب اسلام آباد کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس لمحہ سے لیکر تادم تحریر جو عدالتی کارروائی اور سیاسی سطح پر جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کی نا اہلی کے بعد مسلم لیگ نون نے جناب شاہد خاقان عباسی کونیا وزیراعظم منتخب کر کے ان کی نئی کابینہ کو تشکیل دیدی ہے۔ اور مسلم لیگ نون نے آئین میں تبدیلی کرنے کے بعد جناب نواز شریف صاحب کو بلا مقابلہ مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر پارٹی کا صدر منتخب کر لیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی یوتھ ونگ نے گزشتہ بدھ وار کو الحمرا ہال لاہور کے ایک پرہجوم اجلاس میں باقاعدہ آئینی طور پر پارٹی کی صدارت کا تاج پہننے پر انتہائی جوش و جذبہ کا اظہار کیا گیا۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل کے اجلاس اور لاہور میں الحمرا ہال کے یوتھ ونگ کے اجلاس میں کارکنوں نوجوانوں اور پارٹی قیادت کا جن پر زور اور جوش و خروش سے نہ صرف پارٹی بلکہ پوری قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگرچہ مسلم لیگ نون کی قیاد ت نے میاں صاحب کے نا اہل کرنے کا جو قانونی فیصلہ دیا تھا اس کو ہر چند کے پارٹی قیادت نے قبول کر لیا تھا لیکن قوم اور پارلیمنٹ نے اسے قبول نہیں کیا اس موقف کو نہ صرف سابقہ وزیراعظم نے بار بار دہرایا بلکہ نئے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے اور پوری کابینہ کے مختلف وزراءنے جو ان تمام اجلاسوں میں بلکہ نیب کی عدالتوں میں بھی مختلف ریفرنسز کے مقدمات کی پیروی کے لئے عدالتوں میں شریک ہو کر ایک سیاسی داخلی ماحول پیدا کر دیا ہے جس سے بعض اہم ملکی اداروں کے درمیان تصادم کے خطرہ کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ سابق وزیراعظم نیب میں حاضری کے بعد محترمہ کلثوم نواز کی شدید علالت کے باعث لندن واپس تشریف لے گئے ہیں۔ حالانکہ چند روز بعد ان کو عدالت نے دوبارہ طلب کر رکھا ہے۔ دوسری طرف دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے گزشتہ پیشی پر حاضر نہ ہونے کے باعث نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جا چکے ہیں اور کچھ ایسی ہی صورت ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن صفدر کے بارے میں بھی درپیش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بعض دیگر قوانین کے بارے میں بھی ترامیم کر کے بعض اداروں کے پر کاٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ میرے ذاتی خیال اور پاکستان نیشنل فورم کی پوری لیڈر شپ کی یہ متفقہ رائے ہے کہ موجودہ وقت ایمان اتحاد اور تنظیم پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے قوم کو ملک کے اندر اور باہر پاکستان دشمن قوتوں کے خاتمہ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کا وقت ہے۔ بیرونی خارجہ پالیسی سطح پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیاءپالیسی پاکستان کیلئے شدید خطرات کی حامل ہیں۔ گزشتہ روز قومی سلامتی کے ایسے ہی معاملات پر غورو خوض کیلئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں کور کمانڈر سپیشل میٹنگ میں سات گھنٹے تک طویل مشاورت کی ہے جو اس امر کی ضامن ہے کہ افق پر اندرونی و بیرونی سازشوں کے سیاہ بادل پاکستان کو گھیرے میں لے رہے ہیں لیکن گھبرا نے کی کوئی بات نہیں ہے جہاں ایک طرف خطرات منڈلا رہے ہیں وہاں دوسری طرف ہمارے ساتھ ایک بہادر قوم کا مضبوط عزم اور ہمارے رب کی مدد اور نفرت کی OPPORTUNITIES اور مواقع ہمارے لئے مینار نور ہیں۔ پاکستان زندہ باد