مجھے محمود صادق کے تبصرے پسند ہیں۔ وہ ایک اچھے تجزیہ نگار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں مگر ان کی تنقید وزیراعظم پاکستان کیلئے پسند نہیں آئی کہ عمران خان نے مودی کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم بات کی ہے۔ شاید محمود صاحب چاہتے ہیں عمران کیلئے بھی وہی بات مشہور ہو جائے جو سابق وزیراعظم نوازشریف کیلئے عام ہوئی ہے۔
’’مودی کا جو یار ہے‘ غدار ہے غدار ہے۔‘‘
پروگرام کے اینکر نے قائل کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی بات پر ڈٹ گئے۔ میں ان کیلئے بہت عزت رکھتا ہوں۔ انہوں نے اپنے وزیراعظم کیلئے جو زبان استعمال کی‘ وہ عمران خان نے بھارتی وزیراعظم کیلئے استعمال نہ کی تھی۔
میں نے کبھی کبھی عمران خان پر بہت تنقید کی ہے مگر اس کیلئے بھی صحافیوں کو آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ بھارت کیلئے سخت رویہ اختیار نہ کیا جائے تو وہ بات کو سمجھتا ہی نہیں۔ مودی وزیراعظم ہے تو عمران بھی وزیراعظم ہے مگر بات اس طرح کرتا ہے جیسے وزیراعظم آرمی خود ہو بلکہ خودبخود ہو۔
یہ اچھی بات محمود صادق نے کی کہ پاکستان اور بھارت میں حالات معمول پرآتے ہیں تو زیادہ فائدہ بھارت کو ہوگا۔ مگر بھارت پاکستان دشمنی میں اپنے فائدے کی پروا بھی نہیں کرتا۔
میں جب محمود صاحب کے اخبار میں تھا تو میں کہتا تھا کہ میرے ایڈیٹر مجید نظامی بھی ہیں۔ اب میں نوائے وقت میں ہوں اور مجھے نظامی صاحب نے ہی کالم لکھنے کو کہا تھا۔
عمران خان کی یہ بات مجھے اچھی لگی میرا خیال ہے کہ محمود صاحب کو بھی پسند آئی ہوگی۔ بھارت تکبر چھوڑ دے۔ کیا اس کی اکڑ ہمسایہ ملکوں خاص طورپر پاکستان کیلئے ہے۔ بھارت نوازشریف کی بھارت کے ساتھ پالیسی کیلئے بہت خوش تھا۔
بھارت اور پاکستان کے معاملات مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بہت پیچیدہ ہیں جبکہ برصغیر میں سنگین صورتحال دونوں ملکوں کیلئے تباہ کن ہے۔ پاکستان دشمنی بھارت کیلئے ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مشرقی پاکستان ایک غیرمتنازعہ علاقہ تھا مگر مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے باقاعدہ عملی مداخلت اور شرکت کا اعتراف کیا۔ یہ اعتراف بھارتی وزیراعظم مودی نے بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) میں کیا۔
کشمیر میں لوگ آزادی کی خاطر ایک عالمی سطح کی تحریک چلا رہے ہیں اور شہید ہو رہے ہیں۔ ایک بہت اچھی بات اس پروگرام میں کی گئی ایک انوکھی ٹرائینگل قیادت اور حکومت کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم مودی کے نام بڑے یقین سے لئے جا سکتے ہیں۔ عمران خان دھڑلے کے آدمی ہیں۔ وہ بے نیاز اور بہادر آدمی ہیں۔ انہوں نے کسی قسم کی کمزوری دکھائی تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
کہا جا رہا ہے کہ اس بار اقوام متحدہ میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کیلئے کریڈٹ کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قومی زبان اردو میں بات کی اور بہت دھڑلے سے بات کی۔ اس عمل کو پاکستان کے لوگوں نے بہت پسند کیا اور عالمی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی۔ یہ ایسی بات ہے کہ جس کی توقع نہ تھی۔ آئندہ بھی عمران خان شاہ محمود قریشی اور دوسرے زعما اپنی قومی زبان اردو میں بات کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں میں سے جن کو انگریزی اچھی طرح نہیں آتی تھی‘ وہ بھی انگریزی بولنے کی کوشش کرتے تھے۔
مجھے امید تھی کہ صدر جنرل ضیاء الحق یہ کام کریں گے مگر اب لگتا ہے کہ یہ معرکہ بھی اللہ نے عمران خان کی قسمت میں لکھا ہے۔ اب عمران خان بہت زبردست اردو میں تقریر کرنے لگے ہیں۔ عالمی فورم پر جب یہ موقع آیا تو پاکستان کے لوگ بہت خوش ہونگے اور انہیں اردو بولتے ہوئے بھی فخر محسوس ہوگا۔
برادرم تنویر ظہور بہت اچھے ادیب اور شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پنجابی زبان و ادب کیلئے وقف کی ہوئی ہے۔ میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں تھا تو وہ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں تھا۔ وہ کبھی کبھی اس رفاقت کو بہت جذبے سے بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم ’’راوی‘‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے ایڈیٹر تھے تو میں ’’ناران‘‘ اسلامیہ کالج سول لائنز کا ایڈیٹر تھا۔ یہ ایک بہت لمبی رفاقت کی کہانی ہے۔ اصل میں ہم لاہور میں ایک لمبی دوستی میں پروئے ہوئے لوگ ہیں۔ تنویر ظہور کے علاوہ اس زمانے کا مجھے کوئی دوست یاد نہیں آتا۔
اس کے کالموں کا ایک انتخاب ’’یادیں‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ کتاب کا انتساب ایک دانشور اور رائٹر دوست بہت نفیس انسان ڈاکٹر خالد جاوید جان کے نام ہے۔ ڈاکٹر خالد جاوید جان کا تنویر ظہور کیلئے کہنا ہے ’’ان کے کالموں کی یہ کتاب نئی نسل کو اپنے ماضی سے تعارف ہونے اور اس سے سبق سیکھنے کا شاندار موقع فراہم کرے گی۔‘‘ تنویر ظہور کے بارے میں رائے یہ ہے کہ واقعات کی صحت اور سچائی ان کے قلم کے وہ اوصاف ہیں جن سے ان کے مخالفین بھی انکار نہیں کر سکتے۔ ان کی ادبی اور صحافتی خدمات کے پیش نظر لاہور کالج برائے خواتین کی ایک طالبہ روبینہ کرمانی نے ایم فل کا مقالہ بھی لکھا ہے۔ تنویر ظہور نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے اہل قلم کے انٹرویوز کئے ہیں۔ ان بڑے بڑے لوگوں میںمیرا نام نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ ایک اہم کتاب ہے۔