کشمیر کی صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ دو ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ اہلِ کشمیر ابھی تک محصور ہیں۔ کاروباری مراکز‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ تعلیم اداروں‘ سرکاری دفاتر اور مواصلاتی رابطوں کی بندش سے زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ جہاں مظلومین کی مظلومیت میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے وہیں ظالم کے ظلم اور بربریت کا شکنجہ بھی مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں ممالک کی حکومتوں کی سطح پر اِکا دُکا آوازوں کے سوا ہر طرف خاموشی اور لاپرواہی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ جبکہ عوامی سطح پر اندرونِ ملک بھی اور بیرون ملک بھی یک جہتی کے عظیم الشان مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اندرونِ ملک جماعت اسلامی کا کردار بڑا ولولہ انگیز ار ایمان پرور رہا ہے‘ لیکن یہ مظاہرے مظلوم کشمیریوں کے دُکھوں میں رَتی بھر بھی کمی نہ لا سکے۔
ا س بھری اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے اوجِ کمال کو پہنچی ہوئی دُنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں‘ جو ظالم کا ہاتھ پکڑ سکے؟ آزادی‘ خوشی‘ خوشحالی‘ جمہوریت‘ یہ سب کیا ہیں؟؟؟ کیا خطۂ کشمیر کے 80 لاکھ انسانوں کے لئے ان میں سے کسی چیز میں کوئی حصہ نہیں؟ لوگ زندگی اور اقتدار و اختیار کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ آزادی کے ترانے گار ہے ہیں لیکن کشمیر کے ستم رسیدہ لوگ بنیادی انسانی ضرورت کی اشیاء کو ترس رہے ہیں۔ اب تو مرنے پر انہیں اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا کر قبرستانوں تک لے جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ وہ انہیں اپنے گھروں کے صفحوں ہی میں سپردخاک کرنے پر مجبور ہیں۔
اہل کفر تو خیر‘ ہیں ہی اسلام اور اس کے ماننے والوں کے دُشمن‘ ان سے کیا اُمید ہو سکتی ہے‘ خود پچاس سے زائد مسلم ممالک کا خون سفید ہو گیا ہے۔ سب اپنے تجارتی اور سیاسی مفادات کے اسیر ہو چکے ہیں۔ اسلامی تو کیا ان میں انسانی اور اخلاقی حِس بھی ختم ہو چکی ہے۔ دو ایک کے سوا کسی نے بھی اس ظلم و سفاکیت کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی۔ جب ہر طرف سے اُمیدیں ٹوٹ جائیں تو پھر اللہ ہی کا ایک سہارا باقی رہ جاتا ہے۔ مظلوم و مجبور کشمیری اسی سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔اُسی سے فریاد کرتے ہیں کہ وہ ان کی مدد کے لئے فرشتے نازل کر دے یا آسمان سے ابابیل بھیج دے۔ اب تک کوئی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی ان کی نصرت کو نہیں آیا‘ شاید زمین بانجھ ہو گئی ہے کہ اب ایسے غیور و جسور ر جال پیدا نہیں ہو رہے۔ ایسے میں مجھے ایک کشمیری نوجوان نغمہ خوان زبیر سلفی کا پڑھا ہوا کلام یاد آتا ہے جسے لکھنے والے نے اہل کشمیر کی حالتِ زار کے تناظر ہی میں لکھا اور مذکورہ نوجوان نے انتہائی پُر درد آواز میں پڑھا۔ یہ ایک مظلوم کی اپنے رب کریم کے دربار رحمت میں فریاد ہے…؎
ایک اُمید سے دَر پہ ہُوں سہارا کر دے
ہُوں اندھیروں میں تو رحمت کا ستارا کرے
نائو میری بھرے منجدھار میں ڈوبی جائے
ناخدا کی میرے ہر آس بھی ٹوٹی جائے
اِک اشارے کی لہر بھیج کنارا کر دے
پھر ایک مردِ بزرگ‘ تحریکِ حریت کے بطل جلیل 90برس کی عمر میں بھی جواں مردوں کی طرح مقابلہ کرنے اور ہمت نہ ہارنے ولاے مجاہد سید علی گیلانی کی آواز میرے کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد وہ کچھ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے‘
’’برہان 22سال کا جوان تھا‘ اس کے اخلاص نے ہماری قوم میں نئے سِرے سے ایک ہلچل پیدا کر دی ہے۔ میں اپنی مظلوم قوم سے درد مندانہ اپیل کروں گا کہ جس طرح برہان مجسمہ اخلاص تھا‘ اس طرح آپ کو بھی مجسمہ اخلاص بننا ہے پھر آپ دیکھیں گے اللہ تعالیٰ کی مدد ان راہوں سے آئے گی جن کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔‘‘
انہوں نے اپنی کتاب رودادِ قفس (جلد دوم) میں بھی لکھا کہ:
’’ریاست کے عوام اُسی انکار (بھارت کا حقِ خودارادیت دینے سے انکار) کے خلاف جدوجہد کر کے اپنا غصب شدہ حق مانگ رہے ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد ہر لحاظ سے حق و صداقت پر مبنی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے۔ اس کی مدد ضرور آئے گی اور یہ مظلوم لوگ غلامی کے بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنے مستقبل کی تعمیر کا موقع حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ مسبب الاسباب پردۂ غیب سے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جس کا ظاہر بین نگاہیں وہم و گمان بھی نہیں رکھتیں۔ دُنیا کے نقشے پر دو سُپر طاقتوں میں سے ایک طاقت کا ٹوٹ جانا اور کاسۂ گدائی لے کر دوسرے ممالک کی دہلیز پر بھیک مانگتے پھرنا خدائے جبار و قہار کی اسی غیبی طاقت کا ناقابلِ تردید مظاہرہ ہے جس پر بھروسہ اور اعتماد کر کے حق و صداقت کے علم بردار‘ غلبۂ حق کیلئے مصروف جدوجہد ہوتے ہیں۔
کشمیر پر اس برستی آگ میں بھی نظر بندی کی حالت میں بطلِ حریت نے اپنے تازہ ترین پیغام میں فرمایا ہے کہ کشمیری اپنی شناخت‘ مذہب اور وقار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور وادی میں جلد آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
فضا سے اَبر برستا رہا شراروں کا
مگر رواں ہی رہا کارواں بہاروں کا
رُکے ہوئے ہین جو دریا انہیں رُکا نہ سمجھ
کلیجہ کاٹ کے نکلیں گے کوہساروں کا
انہی دنوں مکہ معظمہ میں رہنے والے شیخ المکی و الحجازی حرم میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کہ کشمیر پر ظلم کی انتہا ہو گئی ہے۔ بدقسمتی سے کوئی بھی ان کی مدد کو تیار نہیں۔ زبانی کلامی حمایت اور اظہار ہمدردی کا مظلوم کشمیریوں کو کیا فائدہ ہو گ؟ شیخ کا مشورہ تھا کہ مسلم ممالک کو چاہئے کہ وہ بھارت کا بائیکاٹ‘ ترکِ تعلقات و ترکِ موالات کریں تو وہ ایک مہینہ بھی برداشت نہیں کر سکے گا۔ اُنہوںنے اہلِ کشمیر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ وقت بہت قریب ہے جب کشمیریوں کی فتح ہو گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے قرآنِ پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیا جس کا ترجمہ ہے کہ :
’’جب لوگ نااُمید ہو جاتے ہیں تو میں رحمت کی بارش برسا دیتا ہوں۔‘‘
اُنہوں نے بڑی رقت سے ا للہ سے فریاد کی کہ:
’’یااللہ! اب ہم کشمیر سے نااُمید ہو گئے ہیں۔ اپنی رحمت کی بارش برسا۔ ان مظلوموں کو ظلم سے بچا‘ کافروں کے ہاتھوں ہماری بہو بیٹیوں کی عزتیں لٹ رہی ہیں اُن کی عزتوں کی حفاظت فرما۔ یااللہ اب تو کوئی محمد بن قاسم بھی نہیں جو ان کی عزتوں کی حفاظت کرے‘ لیکن آپ تو قادر ہیں۔
اِنّ اللہ عَلٰی کُّلِ شَیئِ قَدِیر۔‘‘