مولانا کو کنٹینر بھی دیں گے حلوہ بھی، شہریار آفریدی
وزیر انسداد منشیات کی خوش گفتاری کے تو لوگ پہلے سے قائل تھے۔ اب ان کی مہمان نوازی نے بھی لوگوں کے دل جیت لیئے ہیں۔ وہ کس قدر فراخ دل ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے اپنے قائد کے وعدے کا پاس کرتے ہوتے ان کے وعدے کے مطابق اپوزیشن کو کنٹینر ہی نہیں حلوہ بھی دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ اب تو مولانا فضل الرحمن کو کہنا چاہیے کہ حکومت نے اپنے وعدہ کا پاس کر کے انہیں خوش کردیا ہے۔ اب ان کے لشکر کے لئے کھانا پینا بھی مسئلہ نہیں رہا نان حلوہ بھی حکومت دے گی اس طرح وہ اطمینان سے کئی ماہ اسلام آباد کے پرکیف نظاروں میں ٹھہر سکتے ہیں۔ مگر مولانا اور ان کے حواریوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ کئی وزرا ان کے لانگ مارچ یا دھرنے کا دھڑن تختہ کرنے پر بھی تلے ہوئے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ مولانا کو نکلنے ہی نہ دیا جائے اور موقع واردات پر ہی ان کے پر کُتر دیئے جائیں۔ اب یہ صورتحال تو…؎
معرکہ ہے آج حسن و عشق میں
دیکھئے وہ کیا کریں ہم کیا کریں
والا منظر بننے لگا ہے۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ مولانا کو کنٹینر اور حلوہ ملے گا یا ڈنڈوں اور گرفتاریوں کا جلوہ دیکھنا پڑے گا۔ پہلے کہتے تھے ستمبر ستمگر ہوتا ہے۔ اب نہیں معلوم اکتوبر کو کیا کہا جائے گا۔ کوشش تو بہت ہے کہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے مگر مولانا رعایت دینے کے موڈ میں نہیں وہ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کا اعلان کر چکے ہیں۔ حکومت کے حامیوں کو ابھی سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر کالی سفید پٹیوں والے ڈنڈے تھامے مظاہرین کے خواب آنے لگے ہیں۔ جو ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘‘ والے ترانوں کی گونج میں کشمیر کی بجائے اسلام آباد کا رخ کرنے والے ہیں۔
٭…٭…٭
مریم نواز کو جیل میں ڈینگی کا خطرہ ہے‘ ڈاکٹر
صرف ایک مریم نواز کو ہی کیا خود نوازشریف کے بارے میں یہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ جیل میں بی کلاس کی سہولتیں چھینی جانے کے بعد اب انہیں بھی صاف ستھرے کمرے کی سہولت کہاں ہو گی۔ وہ عام قیدیوں کی طرح گندے کمروں میں قید کاٹیں گے اس وقت مریم نواز کے ڈاکٹر نے ان کے کمرے کی صورتحال دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں مچھروں اور کٹھملوں کی بہتات ہے۔ حیرت ہے جیل میں یہ نہیں ہوں گے تو کیا ہرن، مور اور سرخاب ہوں گے۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں انہیںبہتر کلاس دی جائے۔ مگر وائے حسرت نہ ڈاکٹر کی کوئی سنتا ہے نہ پارٹی کے کارکنوں کی جو اپنے رہنماؤں کی حالت قید سے پریشان ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات اور کچھ نہیں ڈینگی کی وجہ سے ہی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اب یہ ڈینگی مچھر پولیس سے جیل والوں سے ڈرتے تو ہے نہیں کہ جیلوں کا رخ نہ کریں۔ یہ جیلوں کو چھوڑیں ہسپتالوں تک میں بے دھڑک گھس جاتے ہے۔ جبھی تو ڈینگی وارڈز میں مریضوں کے بیڈ پر مچھر دانی لگی ہوتی ہے۔ ورنہ بھلا ہسپتالوں میں مچھروں کا کیا کام وہاں تو حفظان صحت کے اصولوں پر عمل ہوتا ہے صفائی ہوتی ہے سپرے ہوتا ہے۔ مگر لگتا ہے یہ بھی صرف دکھاوے کے لئے ہوتا ہے۔ ورنہ مچھر دانی نہ لگانی پڑتی۔ ان حالات میں جیلوں کی ٹینشن کون لے۔ جیل میں تو قیدیوں کو مچھر تو کیا سانپ اور بچھوؤں سے بھی پالا پڑتا ہے۔ وہ بے چارے تو کاکروچ، چونٹیوں اور مکھیوں سے بھی ناراض نہیں ہوتے۔ کہ چلو وہ بھی رات کو آ کر ان کی خیر خبر لیتے ہیں۔ چوہے وہ بھی بلیوں کی جسامت والے بھی اکثر رات کو جیلوں کی بیرکوں میں آ کر قیدیوں کی گنتی کرتے ہیں۔ قیدیوں نے تو ان کے نام بھی رکھے ہوئے ہیں۔
٭…٭…٭
7 سہیلیوں نے ’’لیڈی ٹی وی‘‘ بنا لیا
خیبر پی کے میں ڈیرہ اسماعیل خان جیسے دور دراز اور پسماندہ علاقے میں شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والی پر عزم طالبات نے سخت رسوم و رواج اور کڑی پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جس عزم کے ساتھ ’’لیڈی ٹی وی‘‘ کے اپنے خواب کو حقیقت دی وہ قابل فخر ہے۔ اس ٹی وی پر کام کرنے والا سارا عملہ بھی خواتین پر مشتمل ہو گا۔ سچ کہتے ہیں …؎
اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
ان لڑکیوں نے یہ سچ ثابت کر دکھایا جس پر یہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ یہ سب انہوں نے اس صوبے میں کیا جہاںآج بھی سابقہ کونسلر برقعہ سلوا کر طالبات کو دیتے کہ وہ پہن کر سکول جائیں۔ اس علاقے میں برقع سے مراد ٹوپی والا برقع ہوتا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ بچیاں سکول میں بھی برقع پوش ہی رہیں گی یا سکول پہنچ کر اتار دیں گی۔ برقع پہننا اچھی بات ہے۔ پردہ ہماری مذہبی اور سماجی روایات کا اہم حصہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان علاقوں میں بچیوں کو بہتر تعلیم دی جائے اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی دیئے جائیں تو یہی بچیاں لیڈی ٹی وی جیسے کئی اور محیرالعقول کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔ جہاں بچیوں کے سکول بم مار کر اڑائے جاتے ہیں وہاں بچیوں کو برقع کے ساتھ رسمی اور اعلیٰ تعلیم دلوانا بھی ضروری ہے تا کہ وہ ڈاکٹرز اور ٹیچرز بن کر علاقہ کے لوگوں کی خدمت کریں۔ جس صوبے میں سٹائلش داڑھی بنانے پر حجاموں کو گرفتار کیا جائے۔ حالانکہ پکڑا ان کو جانا چاہیے جو ایسی داڑھی بنواتے ہیں۔ کوئی وہاں کی پولیس سے کون پوچھے کہ انہیں ہیر ڈریسروں کی گرفتار کا اختیار کہاں سے ملا ہے۔
٭…٭…٭
رنگ گورا کرنے کے لئے چھپکلی سے بنی کریمیں
کِسی کا قد چھوٹا رہ گیا، کسی کے کم عمری میں سر کے بال جھڑ گئے اور وہ گنجا ہو گیا۔ کِسی کا رنگ پیدائش کے وقت ہی سانولا تھا۔ یہ سب فطری امرہیں ان باتوں کو عیب قرار دینا، قدرت کی تخلیق پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے، لیکن یار لوگوں نے ان کمزوریوں کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ آج کے دور میں ذہنوں پر اشتہار بازی نے اس قدر غلبہ پا لیا ہے کہ آپ مٹی کو سونا ثابت کر کے بیچ سکتے ہیں۔ گورا رنگ عورتوں کی بڑی کمزوری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک جائئزے میں بتایا گیا کہ بازار میں بکنے والی رنگ گورا کرنے والی ایک سو سے زائد کریموں کا لیبارٹری تجزیہ کیا گیا، تو صرف تین کریمیں ایسی نکلیں، جو کسی حد تک مفید تھیں، باقی سب فراڈ تھا۔ رنگ اگر کریموں سے بدلنے لگیں، تو سارے سیاہ فارم کب کے گورے ہوچکے ہوتے سب عورتوں کے بال گھٹنوں کو چھونے لگتے، قد بڑھ کر 6 فٹ ہو جاتے۔ لوگ اپنے اس احساس کمتری سے نکلنے کے لئے اشتہاروں کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ اگر چھپکلیوں سے رنگ گورے ہونے لگیں، تو پھر سب چھپکلیوں کو کریہہ المنظر ہونے کی بجائے، خوش جمال حسینہ کی طرح ہونا چاہیے اور وہ گھروں میں ڈیکوریشن پیس کی حیثیت سے دیکھی جانے لگیں۔