پاکستان میں گزشتہ روز یوم یکجہتی کشمیر پر ریلیاں نکالی گئیں‘ ادھر مقبوضہ کشمیر میں جمعہ کو مسلسل کرفیو کے 61 ویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے‘ مساجد میں 9 ہفتے سے نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر بھارتی عدالتیں بھی خاموش تماشائی ہیں۔ برطانوی جریدے ’’اکانومسٹ‘‘ کے مطابق بی جے پی نے عملی طور پر مقبوضہ وادی کو وسیع حراستی مرکز بنا دیا۔ بھارتی جج کشمیر میں حکومتی مظالم نظرانداز کررہے ہیں۔ صورتحال پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل عالمی قیادتوں اور اداروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور بھارت اور پاکستان پر مذاکرات کیلئے زور دیا ہے۔
تمام تر عالمی دبائو کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹانے کے تقاضوں پر تو مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی‘ اس لئے اب بھارتی جنونی ہاتھ روکنے کیلئے عالمی برادری کو عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ دنیا میں آزادی کیلئے محکوم اقوام نے بڑی قربانیاں بھی دیں اور تحریکیں بھی چلائیں‘ لیکن مقبوضہ کشمیر کے نہتے کشمیریوں کی جانی و مالی قربانیوں اور جدوجہد کی مثال نہیں ملتی۔ بھارت اپنی تمام تر جنگی مشینری اور ظالمانہ اقدامات کے باوجود کشمیریوں کو اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکا۔ ہندوستان کی تقسیم کے دوران ریاستوں کیلئے وضع کئے گئے فارمولا کی رو سے کشمیر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرلے‘ لیکن بھارت نے سازش کے تحت جس میں کانگرسی حکومت کے علاوہ گورنر جنرل لارڈمائونٹ بیٹن اور مشترکہ افواج کے انگریز کمانڈر انچیف بھی شامل تھے‘ کشمیریوں سے ان کا یہ حق طاقت کے بل پر چھین لیا۔ جب اس ناانصافی کیخلاف کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے تو بھارت شکست کے خوف سے مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے گیا مگر سلامتی کونسل نے فیصلہ دیا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔ پنڈت نہرو بعد میں اپنے اس وعدے سے منحرف ہوگئے۔ کشمیری گزشتہ ستر سال سے بھارتی ظلم و ستم سہتے چلے آرہے ہیں اور دفعات 370 اور 35اے کی منسوخی کے بعد انہیں کرفیو لگا کر گھروں میں نظربند کر دیا گیا مگر ان سب زیادتیوں اور مظالم کے باوجود انکے عزائم میں معمولی سی لغزش بھی نہیں آئی۔ ایسی پرعزم قوم کو کوئی جبر نہیں دبا سکتا۔پاکستان نے تو ہمیشہ مذاکرات کی بات کی ہے۔ عالمی برادری کو بھارت پر مذاکرات کیلئے زور ڈالنا چاہیے۔ افسوس کا مقام ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دنیا بھر میں بے نقاب ہوچکے ہیں لیکن عالمی برادری تشویش یا بیان بازی تک ہی محدود ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ثالثی کرانے کی دعوتیں دینے والی قوتیں آگے بڑھیں ورنہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوتیں ٹکرا گئیں تو پھر تباہی نہیں بلکہ قیامت آجائیگی۔