وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ روز حکومتی اور پارٹی کے ترجمانوں کا اجلاس ہوا، جس میں جمعیت علمائے اسلام کے آزادی مارچ کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ وزیراعظم نے اس موقعہ پر کہا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی ڈوبتی سیاست بچا رہے ہیں۔ مدارس اصلاحات پر مولانا زیادہ پریشان ہیں۔ کیونکہ مدارس میں اصلاحات کے بعد طلبہ ان کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہو سکیں گے۔ دریں اثناء وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کو روکنے کے لئے پہلی ذمہ داری صوبوں کی ہے۔ اسلام آباد آئے تو پھر دیکھیں گے۔ وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی نے مولانا فضل الرحمن کو تاریخ پر نظرثانی کا کہا ہے لیکن مولانا عطاء الرحمن نے جواب دیا ہے کہ تاریخ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
بڑھتے ہوئے عوامی مسائل پر اپوزیشن کو احتجاج کا حق ہے۔ تاہم حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کی فضا پیدا نہیں ہونے دینی چاہئے۔ ایسی صورت حال سے ماضی کی طرح سسٹم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ، آصف علی زرداری نے اگرچہ آزادی مارچ کی حمائت کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے برعکس پارٹی چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے بڑا اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے والا قدم نہیں اُٹھائیں گے۔ وہ قومیں، جمہوریت جن کے مزاج میں خون کی طرح رچ بس گئی ہے ، ایسے تجربات یا پالیسیوں سے گریز کرتی ہیں، جن سے ماضی میں ملک و قوم کو نقصان پہنچ چکا ہو۔ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے رویے نے جنگ کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے، کشمیریوں کو کرفیو کے نام پر گھروں میں نظر بند ہوئے 61 دن گزر چکے ہیں۔ حالات، اس امر کا تقاضا کرتے ہیں، کہ حکومت اپوزیشن، فوج ، عدلیہ اور دیگر مقتدر ادارے ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنا نازک وقت کبھی نہیں آیا۔ آزادی مارچ کی افادیت میں دلائل کے ڈھیر لگا دیں، لیکن اس مرحلے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی، صرف دشمن کو ہی فائدہ پہنچائے گی۔ اگر مولانا نے آزادی مارچ پر اصرار جاری رکھا، تو صوبائی حکومت اور پھر وفاقی حکومت سے مخاصمت بڑھے گی۔ وفاقی حکومت کو انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے، جیسا کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے خبردار کیا ہے، کہ پانی سر سے گزرنے کا امکان پیدا ہوا تو فوج بلا لیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا باہمی اُلجھاؤ دشمن کا کام آسان کر دے گا۔ جو وزیراعظم کی تقریر اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی سفارتی کوششوں سے عالمی سطح پر ہونے والی ہزیمت کا بدلہ لینے کیلئے اُدھار کھائے بیٹھا ہے۔