محکمہ صحت، ایک سال اور اس سے آگے

Oct 06, 2019

ڈاکٹر یاسمین راشد

پہلے سال کا سفر کٹھن تھا۔ بات صرف الجھی ہوئی انتظامی گتھیوں کے سلجھانے تک محدود ہوتی تو اب تک منزل کے قریب ہوتے۔
مگر یہ ِ رفو گری کا سفر تھا ۔قطار اندر قطار، انتظامی، مالی، تکنیکی اور سیاسی الجھنوں کا ایسا لا متناہی سلسہ جس کا احاطہ ایک کالم میں نہیں ہو سکتا۔
پہلا راستہ جو ہمیں بار بار بتایا گیاکہ وہی کچھ کیا جائے جو ٹی وی یا اخبارات میں خبروں کی زینت بن سکے۔عوامی توجہ حاصل کر سکے۔
چونکہ تمام عمر اسی دشت کی سیاہی میں گزری ہے اس لئے صحت عامہ کے مسائل اور ان کے حل پر تحقیق زندگی کا حاصل ٹھہرا۔ جب ممکن ہوا حالات کی بہتر ی کے لیے تگ ودو بھی کی۔تاہم امید، عزم اور خواب وہیں ہیں، منزل یہ ہے کہ صحت کی معیاری سہولیات امیر غریب ہر ایک کو میسر ہوں، علاج ، تعلیم اور ریسرچ کے مثالی ادارے قائم ہوں۔
حکومت ملنے کے بعد اعدادوشمار کے تفصیلی جائزے سے معلوم ہوا کہ پچاس فی صد سے زائد ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی اسامیاں تو خالی ہیں۔اگر کبھی بھرتیوں کا عمل جزوی طور پر شروع ہوا بھی تو وہ سرخ فیتہ اور ادارہ جاتی سست روی کا شکار ہو گیا۔محکمانہ سطح پر میٹنگز کے علاوہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے رابطہ کر کے رکی ہوئی بھرتیوں کے سلسلے کو جاری کرنے کے علاوہ نئی اسامیوں کی بھرتیوں کو مشتہر کرکے اس عمل کو تیز کیا گیا۔صرف ایک سال میں محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر اور محکمہ سپیشلائیزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں ہم 14903 نئے ڈاکٹرز کی بھرتیاں کر کے ان کو سسٹم میں لے کے آئے ہیں۔ صرف محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیرمیںڈاکٹرز کی دس ہزار کے قریب اسامیاں خالی پڑی ہوئی تھیں ۔ محض ڈاکٹرز ہی نہیں 3543 نرسز کی پوزیشنز پر بھرتیاں مکمل کرنے کے علاوہ 7400 بھرتیوں کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ 3537 پیرا میڈیکل سٹاف کی بھرتیوں مکمل ہونے کے کے قریب اور مزید 1400 بھرتیوں کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔ اسی طرح 442 فارماسسٹس کی بھرتیاں بھی کی گئی ہیں۔ افرادی قوت کے پورا ہونے کے بعد سروس ڈیلیوری میں واضح بہتری نظر آئیگی۔
بنیادی اور دیہی مراکز صحت میں ڈاکٹرز کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑے ہسپتالوں میں ضرورت سے زیادہ رش اور پھر رش کی وجہ سے سروس کوالٹی بری طرح متاثر ہوتی ہے اس لیے ان مراکز صحت پر ڈاکٹرز کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پنجاب بھر کے 2503 بنیادی مراکز صحت میں سے 93% سنٹرز پر نئے ڈاکٹرز کی دستیابی کوممکن بنایا گیا ہے۔ کنسلٹنٹس کی 2200 اسامیوں پر بھرتیاں کی گئی ہیں۔ اکثر ہسپتالوں میں مشینری اور دیگر سہولیات کی دستیابی کے باوجود محض بے ہوشی کے ماہرین ( (Anasthetists کے نہ ہونے کی وجہ سے سرجریز بند تھیں ان ہسپتالوں میں فوری طور پرٹریننگ پروگرام ، نئی بھرتیاں اور روٹیشن کے تحت ان ماہرین کا بندوبست کیا گیا۔ ایک اور اہم مسئلہ ڈاکٹرز کی ترقی کا تھا ۔صرف 2019 میں اب تک صرف ڈاکٹرز کی 1673 ترقیاں کی گئیں۔
صحت عامہ کے تمام اصولوںاوراقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز میں ماں اور بچے کی صحت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ وزارت کا قلمدان سنبھالنے پر اس بات کا تکلیف دہ ادراک ہوا کہ ہم زچہ بچہ صحت کے ایس ڈی جیز کے ٹارگٹس حاصل کرنے میں ناکام ہیں
صورتحال کی سنگینی کی پیش نظر پنجاب میں زچہ بچہ صحت کے پانچ نئے ہسپتالوں پر فوری کام شروع کیا گیا۔ ان میں میانوالی، اٹک، راجن پور، لیہ اور بہاول نگر میں زچہ بچہ صحت کے ہسپتال شامل ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کی جنوبی پنجاب میں زچہ بچہ صحت کے اعشاریوں کے بہتر نہ ہونے کے سبب وہاں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ گنگا رام ہسپتال لاہور میں بہترین ماہرین اور جدید ترین سہولیات سے مزین 400 بستروں پر مشتمل سپیشل زچہ و بچہ کواٹرنری ہسپتال کا منصوبہ بھی شروع کیا جا رہا ہے۔
یہاں سکول ہیلتھ اینڈ نیو ٹریشن پروگرام کا ذکر کرنا بہت مناسب ہو گا۔ اس پر وگرام کے تحت پنجاب کے 9 اضلاع میں پائلٹ کے طور پر شروع کئے گئے پراجیکٹ ابھی تک 7442 بچوں کا طبی معائنہ کیا گیا ہے۔ اس سال کے آخر تک اس کا دائرہ کار تمام پنجاب تک پھیلا دیا جائیگا۔ بچوں کا طبی و غذائی معائنہ پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اس پراجیکٹ کا رسمی افتتاح بہت جلد کر دیا جائیگا۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ حکومت کی خصوصی توجہ بنیادی مراکز صحت کی بہتری پر ہے۔وزیر اعظم ہیلتھ اینیشیٹوکے تحت آٹھ اضلاع اٹک، چنیوٹ، ڈی جی خان، میانوالی، جھنگ، قصور، لودھراں اور راجن پور میں مخصوص بنیادی مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت کی تعمیر نو اور تزئین نو کی جا رہی ہے۔ 35 دیہی مراکز صحت میں بچوں کی نرسریز کا قیام اور ایمر جنسی بلاکس کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔
اسی طرح 300 سے زائدبنیادی مراکز صحت کو 24/7 کے مراکز میں شامل کرنا ، 8 نئے وئیر ہاوسز کا قیام او ر16اربن ہیلتھ سنٹرز کااپ گریڈ کرنا بھی گزشتہ ایک سال کے قلیل عرصہ میں ممکن بنایا گیا۔موازنہ کی غر ض سے یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ گزشتہ دس سال میں ایک ہزارسے بھی کم بنیادی مراکزصحت کو 24/7 کے مراکزبنایا گیا جو کہ ایک سال میں 100کی اوسط بنتی ہے۔ ایک سال میں 300 سے زائد مراکز کو 24/7 میں تبدیل کرنے کے بعد یہ سفر تیزی سے جاری ہے۔24/7 بنیادی مراکز صحت میں زچہ و بچہ کی اضافی سہولیات دستیاب ہو تی ہیں۔
بڑے شہروں میں ہسپتالوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو کی سطح کے ہسپتالوں میں سہولیات کو بہتر بنایا جائے ۔ صوبہ بھر میں اس وقت 40 ہسپتالوں کی ری ویمپنگ پر کام جا ری ہے جن میں 25 ڈی ایچ کیو اور 15ٹی ایچ کیو شامل ہیں۔ اب کچھ ذکر ہو جائے پنجاب میں بڑے ہسپتالوں کا۔ انفرا سٹرکچر کے حوالے سے پنجاب میں 9 بڑے ہسپتالوںپر کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ ان میں نشتر ملتان، چلڈرن ہسپتال بہاولنگر، ڈی جی خان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، بہاولپور برن سنٹرکے علاوہ مزید12 ہسپتالوں میں ایمر جنسی کی بہتری، جناح ہسپتال میں سرجیکل ٹاور کی تعمیر، ڈی جی خان میں نئے بلاکس کی تعمیر کے علاوہ میڈیکل کالج کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے۔
صحت عامہ کی سہولیات کی تمام آبادی تک رسا ئی کے لیے صحت انصاف کارڈز ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے۔ ا ابتدائی طور پر یہ کارڈکم آمدنی والے گھرانوں کو دیا جا رہا ہے تاہم مستقبل میں اس کا دائرہ کار بڑھا دیا جائیگا۔ گزشتہ ایک سال میں صوبہ بھر کے 28 اضلاع میں تیس لاکھ گھرانوں میں یہ کارڈز تقسیم کیے گئے ہیں
پالیسی سازی کے حوالے سے حکومت نے پہلے سے موجود قوانین کا تکنیکی جائزہ لیا ہے اور سروس ڈیلیوری میں رکاوٹ بننے والے معاملات میں انتظامی اصلاحات متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ نئے متعارف ہونے والے قوانین میں ایم ٹی آئی اور پی کے ایل آئی ایکٹ ہیں جبکہ تکنیکی اور دیگر مراحل میں زیر غور دیگر قوانین میں تھیلیسیمیا اینڈجنیٹک ڈس آرڈر ایکٹ، ڈاکٹرز پروٹیکشن بل، ، ڈرگز ایکٹ، پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن ایکٹ، چلڈرن یونیورسٹی ایکٹ ،پنجاب مینٹل ہیلتھ اتھارٹی ایکٹ اور پنجاب ہیومن ٓرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی ایکٹ شامل ہیں۔ہم اپنی پالیسیاں اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے مطابق بنا رہے ہیں۔ اور انشا اللہ محنت سے اپنی منزل پا لیں گے۔

مزیدخبریں