مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی حکومت نے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 14سے 16سال کے بچوں کو گرفتارکرکے جیلوں میں نظربندکیا ہے۔ قابض حکام کو کسی شخص کی گرفتاری کے 10روز تک اس کی گرفتار ی کی وجوہات بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر گرفتاری کی وجوہات بتانا نام نہادمفاد عامہ میں نہ ہو تواس کی مدت میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔انگریزی ویب سائٹ Scroll Inنے اپنی ایک رپورٹ میں کہاہے کہ لوگوں کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا ڈویژنل کمشنر کے مخصوص احکامات پر گرفتار کرکے جیلوں میں بھیج دیاجاتا ہے۔ ویب سائٹ نے اس سلسلے میں کئی مثالیں دی ہیں تاہم یہ سمجھنے کے لیے کہ وادی کشمیر میں کیا کچھ ہورہا ہے ،ہم یہاں ایک مثال پیش کرتے ہیں ۔ویب سائٹ کے مطابق 8اگست کی آدھی رات کو 14سالہ محمد آفتا ب بیکری میں اپنا کام ختم کرکے گھر لوٹا ۔آفتاب جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان کے ایک گائوں میں رہتا ہے۔ وہ کسی گاہگ کے خصوصی آرڈر کی وجہ سے رات دیر گئے تک بیکری پر کام کررہا تھاجو اگلے دن ڈیلیور کرنا تھا۔ اہلخانہ کے مطابق اسی رات دوبجے کے قریب پولیس اور فوجی اہلکاروں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مردوں کو باہر آنے کے لیے کہااورخواتین کو ایک کمرے میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ آفتاب کی سترہ سالہ بہن نے کہاکہ آفتاب نے ابھی تک کام کے کپڑے ہی پہنے تھے کیونکہ وہ بہت تھکا ہوا تھا اوربیکری سے آتے ہی سوگیا۔پولیس اور فوجی اہلکار اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ بہن کے مطابق انہوںنے کوئی مزاحمت نہیں کی کیونکہ ہم ڈر گئے تھے کہ فورسز اہلکار گھر میں توڑ پھوڑ کردیں گے۔ انہوںنے کہاکہ اگلی صبح ہم آفتاب کی رہائی کے لیے پولیس سٹیشن پہنچے جہاں وہ لاک اپ میں تھا۔ آفتاب کا ایک دانٹ ٹوٹا ہواتھا اور ان کے بائیں کندھے پر زخم اور سوجن تھی کیونکہ اس پر شدید تشدد کیاگیا تھا۔ آفتاب کی ایک اور بہن نے کہاکہ9اگست کو گرفتاری کے بعد ہم آخری مرتبہ ان سے 11اگست کو ملے جبکہ بارہ اگست کو ہمیں بتایا گیا کہ اس کوکالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر سینٹرل جیل منتقل کردیاگیا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قابض بھارتی حکام کسی بھی کشمیری کو بغیر مقدمہ چلائے دو سال تک نظربند کرسکتے ہیں۔