یہ تو ماننا پڑے گا کہ مولانا فضل الرحمٰن تقریر کے ماہر ہیں۔ وہ تحمل مزاجی سے گفتگو کرنے کا فن بھی رکھتے ہیں۔ قوت سماعت بھی اچھی ہے۔ کہاں کیا بات کرنی ہے کتنی کرنی کب کیا کہنا ہے اس فن پر انہیں عبور حاصل ہے۔ ملکی سیاست میں وہ ایک بااثر سیاستدان بھی سمجھے جاتے ہیں۔ برسوں تک اقتدار کے مزے لینے کے بعد ان دنوں وہ فارغ ہیں۔ وہ گلیاں چھوڑ آئے ہیں یا یوں کہیں کہ ان گلیوں سے اب ان کا کوئی تعلق نہیں رہا جہاں کبھی ہٹو بچو کے سائرن ہوتے تھے سرکاری رہائش گاہ ہوتی تھی، سرکاری گاڑیاں، سرکاری سٹاف، سرکار کا کھانا سرکار کا پانی، سفر ہے تو سرکاری ملاقات ہے تو سرکاری لیکن اس تبدیلی نے سب سے بڑا ظلم تو مولانا فضل الرحمٰن پر کیا ہے ان سے سب کچھ چھین لیا ہے اور اب وہ سڑکوں پر ہیں کبھی اس نگر کبھی اس نگر، کبھی اس شہر کبھی اس شہر کبھی اس گلی کبھی اس گلی ہاں کبھی کبھی دلکش پہاڑی سلسلوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ گھومنے پھرنے کی وجہ سے کچھ تھکاوٹ کے آثار بھی نظر آتے ہیں مولانا کو تھکاوٹ کے وقت عبدالغفور حیدری بہت یاد آتے ہیں مولانا کی تھکاوٹ دور کرنے کا بہترین طریقہ محترم عبدالغفور حیدری کے پاس ہے۔ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ امیر جمعیت علمائے پاکستان کو چست و چالاک و تر و تازہ کیسے کرنا ہے۔ اب لگتا ہے کہ عبدالغفور حیدری کی ذمہ داریاں بڑھنے والی ہیں کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن اور نیب میں دوریاں کم ہو رہی ہیں دونوں پاس پاس آ رہے ہیں، قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ نیب دور دور سے بلاتا تھا مولانا قہقہہ لگا کر نکل جاتے تھے نیب والے للچائی نظروں سے مولانا کو دیکھتے تھے کیونکہ دیسی گھی کا حلوہ تو مولانا کے ساتھ ہی ممکن تھا۔ اب دونوں اکٹھے ہو رہے ہیں وہ منظر
دیکھنے والا ہو گا۔ ویسے یہ موقع اچھا ہے لگے ہاتھ مولانا فضل الرحمٰن کو اپنے ذرائع آمدن ضرور بتا دینے چاہئیں تاکہ سب جان جائیں کہ مولانا کے کپڑوں کی طرح ان کا کاروبار بھی صاف شفاف ہے۔ آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، شاید خاقان عباسی، جہانگیر ترین پر آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس بنیں تو سمجھ بھی آتی ہے۔ مولانا نے کہاں فیکٹری لگا رکھی ہے، کہاں سینکڑوں ایکڑ زرعی رقبہ ہے، کہاں شوگر مل ہے، کہاں آٹے کی مل ہے، وہ پشین خان کون ہے جو سارے معاملات طے کرتا ہے۔ اگر مولانا بہت مالدار ہیں تو پھر یقینی طور پر وہ بہت باصلاحیت ہیں کہ مدرسے بھی چلاتے ہیں، تبلیغ کے لیے وقت بھی نکالتے ہیں، سیاست بھی کرتے ہیں اور کامیاب کاروبار بھی چلا رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو تو کاروبار ان سے سیکھنا چاہیے۔ ویسے جب وہ خود شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکیں گے تو شیشہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ ویسے نیب کے بلاوے اور پی ڈی ایم کی صدارت کی ٹائمنگ بھی کمال ہے۔ یہ شاٹ تو اتنا شاندار ہے کہ کمنٹیٹر کے پاس تعریف کے لیے الفاظ ہی ختم ہو جائیں۔
گذشتہ دو برس سے مولانا سوال پوچھتے آئے ہیں وہ کہیں بھی جلسہ کرتے ہیں سوال اٹھاتے ہیں، تنقید کرتے ہیں حکومتی وزراء انہیں جواب بھی دیتے ہیں لیکن اب سوال نیب کرے گا جواب مولانا کو دینا ہوں گے۔ چونکہ وہ حضرت ہیں جلسوں عوامی اجتماعات میں جو کچھ کہتے ہیں جواب میں بے شک بے شک کی آوازیں ان کا جوش بڑھاتی ہیں۔ ممکن ہے انہیں نیب میں بیشک بیشک سننے کو نہ ملے لیکن جمہوریت کی خاطرا نہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا ہو گا۔ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے انہیں نیب کو حقائق تو بتانا ہوں گے تاکہ عام پاکستانی یہ جان لے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف والے مال و دولت کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا موازنہ سراج الحق سے کر رہے ہیں۔ دونوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ سراج الحق کا طرز سیاست اور ہے مولانا کا طرز سیاست اور ہے۔ سراج الحق کو عہدوں کی بھوک نہیں ہے نہ انہیں اقتدار کا لالچ ہے۔ نہ انہیں بڑی گاڑیوں کا شوق ہے نہ وہ ہر وقت ایوانِ اقتدار میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ سراج الحق ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ عام آدمی کی سیاست کرتے ہیں جبکہ مولانا اقتدار کی سیاست کرتے ہیں۔ دونوں کا کسی بھی صورت کوئی موازنہ نہیں ہے۔
حکومت پاکستان نے اپنے کسانوں کے لیے گندم کی کیا قیمت مقرر کی یہ بھی چھوڑ دیں، حکومت کسانوں سے کیا سلوک کرتی ہے یہ چھوڑ دیں، حکومت نے اپنے کسانوں کی بہتری کے لیے کچھ کیا یا نہیں یہ بھی چھوڑ دیں، کسان حکومت سے خوش ہیں یا نہیں یہ بھی چھوڑ دیں، کسانوں کو ان کے جائز حقوق مل رہے ہیں یا نہیں یہ بھی چھوڑ دیں لیکن کسانوں کو سوال کا حق تو دیں۔ آج پاکستان کا کسان حکومت وقت سے پوچھتا ہے کہ جس قیمت پر گندم امپورٹ کی جا رہی ہے آئندہ سیزن میں اس قیمت پر گندم اس سے بھی خریدی جائے گی، اگر حکومت بیرون ملک سے گندم مہنگے داموں خریدے اور اپنے کسانوں کے جائز مطالبات بھی پورے نہ کرے تو کسان کہاں جائے۔ گندم وافر ہوتی ہے کم کیوں ہوئی، کیوں گندم کی سمگلنگ کے تمام راستے کھلے چھوڑ دئیے گئے۔ یا پھر گندم ایکسپورٹ کر دی گئی سستے داموں ایکسپورٹ کریں پھر مہنگے داموں امپورٹ کریں، چینی سستے داموں ایکسپورٹ کریں پھر مہنگے داموں امپورٹ کریں یہ قیمتوں میں واضح فرق محض اتفاق ہے یا اسے کچھ اور نام دیا جائے۔ اسے کیا کہا جائے۔ چند ہفتے قبل انہی صفحات پر چینی ایک سو بیس روپے فی کلو فروخت ہونے کے بارے اطلاع دی تھی آج چینی اسی بھاؤ فروخت ہو رہی ہے۔ حکومت کی اس ناقص امپورٹ، ایکسپورٹ پالیسی نے عام پاکستانی پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالا ہے آٹے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ بڑھتی رہے گی آئندہ فصل کے وقت کسان یہ سوال ضرور اٹھائیں گے کہ اگر بیرون ملک گندم کی اور قیمت پر خریدی جاتی ہے تو اندرون ملک وہی قیمت کیوں مقرر نہیں کی جا سکتی۔ اس معاملے میں حکومت کی پالیسی ناقص پلس ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں نہ قیمتوں پر قابو ہے نہ طلب رسد کو سمجھ پائے ہیں اور اس عمل میں اشیاء خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے نکل چکی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک صرف بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مسئلہ تھا اب قیمتوں کے ساتھ ساتھ دستیابی اس سے بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں یہ قیمتیں پہنچ چکی ہیں واپسی کیسے ممکن ہے۔ واپسی تو بعد کی بات ہے فوری طور پر تو استحکام کی ضرورت ہے اگر حکومت استحکام میں ہی ناکام رہتی ہے تو پھر قیمتوں میں کمی ناممکن ہے۔ وزراء کی کارکردگی شاید ان کے بیانات سے دیکھی جاتی ہے کون کتنے بیان جاری کرتا ہے اپوزیشن کو کتنا ٹف ٹائم دیتا ہے یہی پیمانہ اور معیار ہے۔ اگر کارکردگی کو معیار بنایا جائے تو جیسے قیمتیں آسمانوں پر پہنچی ہیں وزراء بھی زمین کے بجائے کسی اور جگہ منتقل کر دئیے جاتے۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بات چیت اور اتفاق رائے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ سیاسی اعتبار سے یہ ایک اچھی پیشرفت ہے اور اس موومنٹ میں شامل جماعتوں کے سیاسی ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو کہیں اور سے خطرہ ہو نہ ہو لیکن انہیں سب سے خطرہ اندر سے ہے اور پی ڈی ایم کی سب سے بڑی دشمن پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ وہ ناصرف وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں بلکہ امپائرز کے ساتھ بھی ملے ہوئے ہیں۔ بالخصوص آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی اہم افراد سے بات چیت میں کوئی تعطل نہیں آتا ان حالات میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے فیصلوں پر بات کریں گے۔ یہاں موجود سب جماعتوں کو ایک دوسرے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ سب کے اپنے اپنے مسائل ہیں لیکن سب کا مقصد حصولِ اقتدار ہے اور اقتدار کے راستے میں کسی سے وعدہ نبھانا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکومت کو کارکردگی دکھانے کے لیے وقت ملا تھا۔ وزراء بتا سکتے ہیں کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ کیا کسی وزیر نے آٹے، چینی، منہگائی، کرپشن، بے روزگاری کی بات کی ہے۔ شاید سارے عوامی مسائل ختم ہو گئے اس لیے وفاقی وزراء چار پانچ روز سے پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے دیگر اہم مسائل پر بھی بات کی ہے لیکن جن عوامی مسائل کی انہوں نے نشاندہی کی ہے اس کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اپوزیشن کی اپنی حالت بھی اچھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کے پاس عام آدمی کے مسائل پر سیاسی مقدمہ لڑنے، عوام کو باہر نکالنے اور ووٹرز کو سڑکوں پر لانے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ شاہد خاقان عباسی واضح الفاظ میں اپنا موقف پیش کرتے ہیں انہوں نے اپنی جماعت کا مقدمہ بھی پیش کیا ہے۔ ہم پہلے یہ تجویز دے چکے ہیں کہ وزراء کے انٹرویوز اور ٹی وی پروگرامز میں شرکت کو محدود کیا جائے۔ وزیر اطلاعات اور چند ترجمان اس کام کے لیے مقرر کیے جائیں وزراء ہر روز چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن اپنے دفاتر میں رہیں اور جس کام کے لیے وہ حکومت میں آئے ہیں اس پر توجہ دیں۔ اس کے برعکس یہ سارا دن سوشل میڈیا اور میڈیا پر مصروف رہتے ہیں اس صورت حال میں عام آدمی کے مسائل پر توجہ کون دے گا۔