ملک میں سیاسی اتحاد اور سیاسی رشتے بنتے رہے ہیں فر ق صرف یہ ہے کہ پہلے اتحادوں میں جناب مفتی محمود ، جناب شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان، جناب مولانا عبدالستار خان نیازی جیسے لوگ تھے اور ان قائدین پر انکے کردار کے حوالے سے کوئی انگلی نہیں اٹھاتا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ ملک کی تعمیرو ترقی اور قوم کو اکٹھا کر کے وفاق ِپاکستان کو مضبوط کرنے کی بات کی۔ سیاسی اختلاف جمہوریت کا حسن ہے مگر قوم کو سندھی، بلوچی، پٹھان اور اب بہت عرصے کے بعد جاگ پنجابی جاگ کے بعد لاہور کی ریلی کے اندر پنجاب کی بات کی ہے جو ان حالات میں آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور اس سے پاکستان کی محبت نہیں بلکہ اپنی ذات اور اپنی انا کی تسکین کیلئے نیا فساد برپا کرنے کی سازش ہے ۔
کیا آج بربادی کو دعوت دینے کیلئے کافی نہیں کہ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے حدیں کراس کر گئے ہیں کیا شہیدوں کے خون سے سیراب سر زمین پاکستان اس کی متحمل ہو سکتی ہے ؟ دراصل ہم بھول گئے ہیں کہ روزِ حساب ضرور آئے گاجب ہمیں اللہ کے حضور ایک ایک دھیلے کا حساب دینا ہوگا۔ جب ہم سکول میں پڑھتے تھے اور اگلے بچے کو مار پڑتی تھی تو ہم سوچتے تھے کہ اب ہماری باری ہے مگر سمجھ نہیں آتا کہ جنازہ دیکھ کر ہم یہ کیوں نہیں سوچتے ؟ اس لیے کہ شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔ بے فکر ہو جائو کسی وقت بھی عزرائیل علیہ السّلام نے ضرور آنا ہے جن سے اللہ راضی ہے وہ ہر وقت کہتے ہیں کہ :
مجھے کُن سے کر قریب ترمجھے اپنے در کی گدائی دے
مجھے اس جہاں سے غرض نہیں مجھے اُس جہاں کی رسائی دے
میرے تصور سے بھی بالاتر تھا کہ کبھی ایسا وقت بھی دیکھنا پڑے گا جب پاکستان پر حکمرانی کرنیوالے اسی ملک کیخلاف اور سٹیٹ سیکرٹس کو موضوع گفتگو بنائیں گے اور اپنے ہی اداروں کو فتح کرنے کی بات کرینگے۔ آج پاکستان کے دشمن اور خاص طور پر ہمارے پڑوسی دشمن بہت خوش اس لیے نظر آتے ہیں کہ جو کام وہ خود سے نہیں کر سکتے آج پاکستان کی محبت میں مرمٹنے کے دعویدار احسن طریقے سے انکے ایجنڈے کی جانے انجانے میں تکمیل کر رہے ہیں ۔ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر جھک جانے سے تمہاری عزت چلی جائے تو روزِ محشر مجھ سے لے لینا ۔ عجیب حشر برپا ہوا ہے کہ شرم و حیا ، احساس و ذمہ داری کا فقدان ہے ۔ یہ کیوں بھل گئے ہیں کہ اخلاق کا اچھا ہونا خدا سے محبت کی دلیل ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ :
کس کو پتھر ماروں قیصر کون پرایا ہے
شیش محل میں ہر اک چہرہ اپنا لگتا ہے
پاکستان میں ہر صورت احساس ذمہ داری وقت کا تقاضا ہے ۔ چاہے اپوزیشن ہو یا حکومت خاص طور پر اداروں کو ہر گز اپنی لامتناہی جنگ کا حصہ نہ بنائیں اور انھیں ہر صورت عزت دیں۔ کاروبارِ حکومت یقینا کسی قاعدے قانون پر چلتا ہے اور وزیر اعظم بحیثیت چیف ایگزیکٹو اپنے ویژن کیمطابق امور مملکت چلاتے ہیں اور ادارے یکسوئی کے ساتھ بہترین ملکی مفاد میں اپنا اپنا رول ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ کچھ چیزیں Understood ہوتی ہیں اس لیے ہر وقت یہ گردان کرنا کہ حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں شاید ضروری نہیں ہے بلکہ حکومت اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لا کر قوم سے کیے وعدے پورے کرکے مایوسی اور بے چینی کے گڑھے میں گرنے سے بچائے قوم نے تو مذاق میں کہا تھا کہ بقولِ شاعر:
میں نے کہا رنگوں سے عشق ہے مجھے
پھر زمانے نے ہر رنگ دکھایا مجھے
یہ بہت ٹیلنٹڈ قوم ہے بہت سختیاں برداشت کر چکی ہے بہت ہو چکا ہے کیوں کہ اب تو یہ بے خودی میں کہہ رہے ہیں کہ :
کیمیا گر پرکھ تو سہی اور پرکھ کے ہمیں بتا
کونسی دھات کے خواب ہیں جو پگھلتے بھی نہیں اور بکھرتے بھی نہیں
میرا حکومت اور اپوزیشن کو مشورہ ہے کہ ملکی مفاد میں ہر صورت :
زندگی کا یہ ہنر بھی آزمانا چاہیے
جنگ کسی اپنے سے ہو تو ہار جانا چاہیے
کہیں ایسا نہ ہوکہ قوم کا اعتماد اس سسٹم اور اپنے رہبروں سے بالکل ختم ہو جائے اور آپ سب ہاتھ ملتے رہ جائیں کیوں کہ قوم میں پریشانی کے عالم میںایک سوچ پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ :
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
٭…٭…٭