وفاقی دارالحکومت کے خوبصورت پہاڑوں کے نواح میںتعمیر ہونے والی سعودی حکمران شہید شاہ فیصل کے نام سے منسوب شاہ فیصل مسجد نہ صرف چاروں صوبوں کے رہنے والوں کی توجہ کا مرکز ہے بلکہ بیرون ملکوں کے سیاحوں اور سفارت کاروں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسلام آباد کی عالیشان اور دیدہ زیب شاہ فیصل مسجد کو دیکھیں۔خاص طورپر یہاں جمعتہ المبارک کو بہت زیادہ رش ہوتا ہے کچھ تو نماز پڑھنے والوںکا اور زیادہ تر اندورن ملک سے آئے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے جن میں بوڑھے ، بچے، جوان اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ شاہ فیصل مسجد کی تعمیر 1987 میں ہوئی جس کے تماتر اخراجات سعودی حکومت نے برداشت کئے البتہ اس کی تعمیرمیں بہت سے سعودی مخیر حضرات نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا ۔مسجد کے اندر تو دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اگر مسجد کے کل ایریا میں نمازیوں کا حساب لگایا جائے تو اس میں ایک لاکھ نمازیوں کے نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔ہمیں یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ مسجد کے طہارت خانوں میں صفائی کا باقاعدہ کوئی انتظام نہیں ہے حتیٰ کہ نلکے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے افسران کے کانوں پر جوں نہیں رنگنتی۔مسجد کے ایک ذرائع نے اس کالم نگار کو بتایا کہ لاک ڈائون کے دوران مسجد کے ہال کو سی ڈی اے نے بند کر دیا تھا جو اب ڈپٹی کمشنر کے حکم پر کھولا گیا ہے کہا جاتا ہے کہ جب کبھی غیرملکی یہ مسجد دیکھنے آتے ہیں تو پاکستانی خواتین کوعریاں لباس پہنے دیکھ کر ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اگرچہ مسجد میں نماز پانجگانہ تو ہوتی ہے تاہم یہاں زیادہ تر ان لوگوںکا رش ہوتا ہے جو بین الاقومی مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب کا فرض ہے کہ مسجد کے تقدس کو ہر صورت میں برقرار رکھیں۔ہمیں یہ سن کر تعجب ہوا کہ بعض حضرات کے پاس مسجد کو دیکھنے کے لئے یہاں آنے والی خواتین کی عریاں لباس میں ان کی وڈیوز موجود ہیں۔اگرچہ انہوں نے ہمیں مسجد آنے کی دعوت تو دی مگر وقت کی کمی کے باعث ہم وہاںجا نہیں سکے۔بہرکیف ہمیں جو تفصیلات مل سکیں ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔شاہ فیصل مسجد کے مین ہال کا افتتاح شہید جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنی
شہادت سے لگ بھگ ایک دو ماہ پہلے کیا تھا۔اندرون اور بیرون ملک سے اسلام آباد آنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہوتا جو شاہ فیصل مسجد دیکھے بغیر یہاںسے واپس لوٹے۔شاہ فیصل مسجد کی تعمیر اور اس کی تزئین و آرائش سعودی عرب میں تعمیر ہونے والی مساجد کی ہوبہو ہے سعودی حکومت دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر کے لئے عطیات دیتی رہتی ہے ہمیں یاد ہے 1989 اس وقت کے سعودی حکمران شاہ فہد بن عبدالغریز آل سعود نے پاکستان کے دیہی علاقوں میں مساجد کی تعمیر کے لئے کئی ملین روپے کا چیک اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور خان بہادر مرحوم کو دیا تھا تاکہ ملک کے چاروں صوبوں کے دیہی علاقوں میں مسجد تعمیر ہوسکیں۔وفاقی دارلحکومت میں واقع قریبا تمام مساجد کا کلی طور پر کنٹرول سی ڈی اے کے پاس ہے ۔بلکہ مساجد کی مرمت اور ہر طرح سے دیکھ بھال کی ذمہ داری اسلام آباد کے ترقیانی ادارے کے پاس ہے تاہم بدقسمتی سے سی ڈی اے والے قومی اسمبلی و سینٹ کے ارکان کیلئے مختص ہاسٹل کی تزئین و آرائش پر زیادہ تر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔حالانکہ فیصل مسجد کی دیکھ بھال اور اس کی منٹنس کی ذمہ داری بھی سی ڈی اے کے پاس ہے۔شائد سی ڈی اے حکام کے خیال میں مسجد کی تعمیر سعودی حکومت نے کی ہے لہذا اس عالی شان مسجد کی دیکھ بھال بھی سعودی حکومت کی ہے۔جہاں تک مسجد کے اندر سیاحوں کی آمد کا تعلق ہے عام طور پر اندرون اور بیرون ملکوں سے آنے والے لوگ اس پرکشش مسجد کی تصاویر بنانے کے لئے مسجدکے احاطہ میں بھی داخل ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں اسلام آباد کی اتنظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ یہاں پولیس کا باقاعدہ پہرہ ہونا چاہیے تاکہ نمازیوں کے علاوہ جو لوگ صرف مسجد کی زیارت کو آتے ہیں ان پر نگاہ رکھیں اور اگر کوئی شخص غیر اخلاقی حرکات کا مرتکب پایا جائے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔اس ضمن میں سوشل میڈیا پر بھی بہت سے تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں تو نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ ہم ذکر کر رہے تھے مسجدکی دیکھ بھال کرنے کی ۔اگلے روز سی ڈی اے کے ایک ڈائریکٹر نے فیصل مسجد کا دورہ بھی کیا جس میںانہیں مسجد میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے متعلق انہیں آگاہ کیا گیا ذرائع نے بتایا کہ ترقیاتی ادارے کے ڈائریکٹر نے انہیں مسجدکے امور سے متعلق باخبر رکھنے کو تو کہا ہے تاہم اس بات کا دور دور تک امکان نہیں کہ سی ڈی اے حکام مسجد کے قرب وجوار اورطہارت خانوں کی باقاعدہ صفائی ستھرائی کا جلد بندوبست کریںگے۔چنانچہ اس سلسلے میں مسجد کے حالات کا پوری طرح جائزہ لینے کے لئے چیئرمین سی ڈی اے اور وزارت داخلہ کے حکام کو موقع کا جائزہ لینا چاہے ۔قابل توجہ امر یہ ہے کہ سعودی حکومت جس نے ایک سو بیس ملین ڈالر سے اس عظیم الشان مسجد کی تعمیر کی تھی اگر ان کے علم میں مسجد میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ لائی گئی تو بین الاقومی طور پر ہمارے ملک کا تشخص مجروح ہونے کا امکان ہے ۔لہذا اسلام آباد کی انتظامیہ کواللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس گھر کے معاملات کا پوری طرح ادارک ہونا چاہیے تاکہ ملک کے دور دراز علاقوں سے مسجدمیںنماز پڑھنے اور اسے دیکھنے کی خواہش لئے آنے والوںکو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو مساجد کے تقدس اور نمازوں کی ادائیگی کی توفیق دے آمین