پشاور (صباح نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ پشاور میں گرد ہی گرد ہے۔ اتنی گرد ہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہے۔ کہاں ہیں بلین ٹری سونامی کے درخت، ہمیں تو ایک بھی نظر نہیں آیا۔ ڈی جی ماحولیات، سیکرٹری ماحولیات، سیکرٹری انڈسٹری اور ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے افسر کام نہیں کررہے سب کو فارغ کردینا چاہیے۔ افسروں کا کام خط لکھنا نہیں، یہ بابو کا کام کیا ہے، آفیسرز اے سی میں بیٹھ کر کام کررہے ہیں۔ پشاور کا یہ حال ہے دیگر شہروں کا کیا حال ہوگا، یہاں تو اتنی فیکٹریاں بھی نہیں پھر بھی یہ صورتحال ہے۔ یہاںکرونا نہ بھی ہو تو ماسک پہننا ضروری ہے۔ ہم رات کے وقت پشاور آرہے تھے تو بہت برے حالات تھے، شام کے وقت ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ آپ لوگ اس کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔ آپ تو کہہ رہے بلین درخت لگائے ہیں، آپ کے درخت کہاں پر ہیں۔ شاہراہ کے کنارے کوئی درخت نہیں صرف دھواں نظر آ رہا تھا۔ سیکرٹری ایسے سفید کپڑوں میں آئے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ کبھی فیلڈ میں گئے ہوں، یہ کام کے بندے ہوتے تو انکے کپڑے اتنے صاف نہ ہوتے، یہ صرف خط لکھتے ہیں اور دفتر میں افسری کرتے ہیں، ان تمام افسروں کو فارغ کر کے ایسے بندے لائے جائیں جو کام کے ہوں، پشاور میں ماحولیاتی آلودگی اتنی ہو چکی کہ یہاں ماسک کے بغیر کوئی گھر سے نکل نہیں سکتا۔ عدالت نے چار ہفتوں میں متعلقہ محکموں سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے انتظامات نہ ہونے پر برہم ہوگئے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ افسر کام کر رہے ہوتے تو کلف والے کپڑوں میں نہ آتے‘ جینز پہن کر آتے۔ خطوط پر کام ہونے کا زمانہ چلا گیا۔ حکومتی رپورٹ میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے، کاغذی معاملات میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ کو پتہ نہیں کہ دنیا میں معاملات کیسے چل رہے ہیں۔ لاہور میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے اچھے اقدامات کیے گئے۔