سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج نہ کرنے پر وفاقی حکومت جب کہ پنجابی زبان کو صوبے میں رائج نہ کرنے پر پنجاب حکومت سے بھی جواب طلب کر لیا۔ آئین کے آرٹیکل 251 میں قومی زبان کے ساتھ علاقائی زبانوں کابھی ذکر ہے۔ قومی اورمادری زبانوں کے بغیر ہم اپنی شناخت کھو دینگے۔ بزرگوں کی طرح فارسی اور عربی بھی سیکھنی چاہیئے۔ سرکاری نوٹس انگلش میں ہوتے ہیں جس میں لکھا جاتا ہے کہ اردو کو رائج کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ اردو زبان کو رائج کیا جائے، اس لیے کہ 80 فیصد لوگوں کو انگریزی نہیں آتی۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی نے اس بات کااعتراف کیا کہ اردو کو ابھی تک رائج کرنے کا کوئی Plan نہیں بنایا گیا۔ یہ اتنا آسان نہیں۔ ہم اپنی کمزوری تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم پڑھے لکھے، علم والے بندے کی پہچان یہ سمجھتے ہیں، جو انگریزی بول رہاہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کو مادری زبانوںکے بجائے صوبائی قومی زبانیں کہا اور سمجھا جائے۔ کیوں کہ پنجابی، سندھی، بلوچ اور پشتون قومیں ہیں۔ ویسے بھی مادری کہنا درست نہیں۔ کیا یہ زبانیں صرف ہماری مائیں ہی بولتی ہیں۔ بابا دادا اور خاندان کے دیگر افراد بھی تو یہی زبانیں بولتے ہیں۔ آج کل تو فیشن ہے، پنجابی مائیں اپنے بچوں سے اردو بولتی ہیں۔ جو پڑھی لکھی مائیں ہیں وہ ابتدا ہی سے بچوں کو انگلش سکھاتی ہیں۔ چار سال کا میرا پوتا انیق حمیر انگلش میں گفتگو کرتا ہے، اردو بہت کم سمجھتا اور بولتا ہے۔ میں نے دیکھا اور سنا ہے کہ پنجابی زبان کے اساتذہ اور پروفیسر صاحبان اپنے بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ شعبہ پنجابی پنجاب یونیورسٹی کے ایک سابق چیئرمین کے گھر گیا تو وہ بچوں کے علاوہ اپنی اہلیہ سے بھی اردو میں گفتگو کر رہا تھا۔ اسلام آباد کے ایک وفاقی ادارے کی سندھی افسر کی شادی پشتون کولیگ سے ہو گئی۔ ظاہر ہے رابطے کی زبان اردو ہے۔ گھر میں ماں باپ، بچے سب اردو بولتے ہیں۔ بچوں کو سندھی آتی ہے نہ پشتو۔ یہ بچے کسی فارم پر مادری زبان کے خانے میں کیا لکھیں گے یا کیا لکھنا چاہیئے؟
اس میں شک نہیں کہ اردو قومی اور رابطے کی زبان ہے مگر صوبائی زبانوںکو بھی ان کا حق ملنا چاہیئے۔ جنرل (ر) شفیق الرحمن (مرحوم) نے قومی زبان کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اردو کا جنم پاکستان سے ہوا۔ یہیں سے یہ دور دراز کا سفر طے کر کے موجودہ دور تک پہنچی ہے۔ اس سفر کے دوران اس کا رابطہ تقریباََ ہر زبان سے رہا اور اس نے ہر زبان کے الفاظ کو فراخدلی سے قبول کیا۔ لسانی روایات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اردو کا دامن علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں کے بے شمار خوبصورت الفاظ، تراکیب اور محاوروں سے بھرا پڑا ہے۔ اردو کی صرف و نحو اور ذخیرہ الفاظ پر بھی صوبائی زبانوں کا اثر مسلّم ہے۔ خصوصاََ پاکستان بننے کے بعد یہ عمل پہلے کی نسبت زیادہ تیز ہوا ہے ا ور صوبائی زبانوں کے نت نئے الفاظ اور محاورات اردو کے دامن کو سیع سے وسیع تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اردو کے فروغ سے نہ تو انگریزی زبان کو کوئی خطر ہے نہ علاقائی زبانوں کو، بلکہ اردو کی ترقی علاقائی زبانوں کے فروغ کا ایک اہم وسیلہ ہے‘‘
نئے دور کی نئی اردو زبان اور نیا شعری اسلوب کیا ہو گا تو وہ ظفر اقبال ہیں جنھوں نے اپنی شاعری اور زبان سے ہلچل مچائے رکھی۔ گو انکی زبان اور شاعری کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا گیا لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ظفر اقبال نے بڑے اعتماد سے نئی پاکستانی اردو زبان کی تشکیل میں حصہ ڈالا، جس میں پنجابی کے الفاظ شامل کرنے کے علاوہ نئے اردو الفاظ بھی شامل ہے۔ ان کی کتاب ’’گل فتاب (گل جمع آفتاب) کا نام اسی طرح کی تازہ کاری کی کوششوں کا آئینہ دار ہے۔ 1974ء کے بعد تخلیق ہونیوالے پاکستانی اردو ادب میں پاکستان سے محبت اور پاکستانیت واضح طور پر جھلکتی ہے۔ ان زمینی اور جغرافیائی مظاہر کے ساتھ مقامی فکری اور ذہنی عوامل بھی گزشتہ 75 سال سے پاکستانی اردو ادب میں موجودہیں۔ پاکستانی کلچر، ماحول، تہذیب، رسوم و رواج، عقائد ایک نئی اور پاکستانی اردو زبان میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ جس میں پاکستان کی دیگر زبانوں کے الفاظ و مرکبات ایک نیا ذائقہ اور نیا حسن پیدا کرتے ہیں۔ پاکستانی زبانوں کی آمیزش سے ایک نئی پاکستانی اردو تشکیل پا رہی ہے۔ اشفاق احمد نے مرکزی اردو بورڈ کے تحت (جس کا نام اب اردو سائنس بورڈ ہے) 1972ء میں ایک کتاب ’’اردو کے خوابیدہ الفاظ‘‘ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ لغت میں کسی لفظ کے معنی تلاش کرتے ہوئے اردو زبان کے چند ایسے الفاظ نظرآئے جو اردو تحریر و تقریر میں اب کم استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی علاقائی زبانوں میں اظہار کا اہم حصہ ہیں۔ یہ الفاظ خوابیدہ ضرور ہیں، متروک نہیں، کیونکہ ایک تو علاقائی زبانوں میں انکے روزمرہ استعمال نے انھیں زندہ رکھا ہے، دوسرے اردو کے مستعمل محاوروں اور ضرب المثلوں میں گاہے بگاہے ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ان خوابیدہ الفاظ میں چند ملاحظہ کیجئے۔ بُکّل (دپٹے یا کمبل کو ایک خاص طریقے سے کندھے پر ڈالنا) تاپ (بخار) ٹبر (خاندان) حیاتی (زندگی) سلونا (نمکین) فتوحی (صدری) کوک (صدائے بلند) لوک (لوگ) ملوک (سندر) نمانا (بھولا) ویاہ (شادی) ھوکا (خواہش) ویلا(وقت) وغیرہ۔