ہمارے دوست حافظ عزیر احمد گڑھی شاہوی بین الاقوامی شہرت کے حامل اردو و زبان و ادب کے ایک ایسے منفرد شاعر ہیںجن کے فریش جوس کی ’’مشہوریوں‘‘ اور دوستیوں کا سلسلہ گڑھی شاہو،امریکہ ، کینیڈاسے لیکر خلیجی ریاستوں اور یورپ سے ہوتا ہوا ترکی ،برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے مگر اتنی مشہوری کے باوجود پتا نہیں حافظ صاحب کی کیا ’’بیڈ لک ‘‘ہے کہ کسی بھی اخبار یا رسالے میں جب بھی انکے حوالے سے کوئی مضمون، کالم یا ان کا اپنا کلام چھپتا ہے تو کمپوزر حضرات اکثر اُن کے نام عزیر احمد کی جگہ عزیز احمد اور معروف ادیب کی جگہ ’’ معروف عجیب‘‘ ٹائپ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ مشہورِ عالم محاورہ’’جنے لاہور نہیں تکیا اوہ جمیا ای نہیں‘‘ کی طرز پر لاہور سمیت بیرون ممالک رہنے والے ہمارے سبھی شاعروں، ادیبوں میں یہ بات عام ہے کہ جس نے حافظ عزیر احمد گڑھی شاہوی سرکارکے ’’آستانے‘‘ سے مفت کا جوس نہیں پیا وہ ادیب ہی نہیں ہے۔گویا فی زمانہ لاہور کے ادبی منظر نامے میں شاعروں ادیبوں کو باقاعدہ رجسٹر ہونے کیلئے گڑھی شاہو میں حافظ جوس کارنر سے مفت جوس پینے کی سند حاصل کرنا لازمی ہے۔سو حافظ صاحب کے ہاں اس مفت جوس پینے کے چکر میں اب تک حافظ صاحب کاشاید ہی کوئی واقف کار بچا ہوجسے شاعر ادیب ہونے کا دعویٰ نہ ہو اس لئے کہ غریبوں کے علاوہ یہاں مفت جوس پینے کی سہولت صرف ادیبوں کو حاصل ہے وگرنہ تو حافظ صاحب اتنے ظالم کاروباری ہیں کہ بغیر خریدے خود بھی اپنی دوکان سے کبھی مفت جوس نہیں پیتے۔گمان ہے کہ تازہ پھلوں کا جوس پینے کے حوالے سے ہمارے لاہوری شاعروں ادیبوں میں ’’مفت بری‘‘ کی یہ روایت تب سے شروع ہے جب سے حافظ صاحب اپنی دوکان پر آنیوالی کسی حسینہ کو جوس پلانے کے بعد اُسے بِل دینے کی بجائے اپنا دِل دے بیٹھے ہیں۔جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کسی ستم ظریف ادیب نے اپنے دو وقت کی روٹی کیلئے انہیں زبردستی شعر و شاعری کے دھندے میں پھنسا دیا ہے۔اب حافظ صاحب کے دل کا حال خدا جانتا ہے یا وہ خود کہ اُنکے اندر سچ مچ کسی شاعرنے جنم لیا ہے یا وہ ’’سیکھے ہیں مہ رخوں کیلئے ہم مصوری‘‘ کے مصداق جھوٹ موٹ کے شاعر بنے ہوئے ہیں۔ اس شک کو اس وقت زیادہ تقویت ملتی ہے جب وہ کسی مشاعرے میں اپنا کلام سناتے ہوئے غیر ارادی طور پر غزل اورفروٹ منڈی میں آڑھتیوں سے اپنے حساب کتاب کو آپس میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہے اب صورتحال یہ ہے کہ گڑھی شاہو میں حافظ صاحب کے ڈیرے پر شاعروں ادیبوں کی ’’جوک در جوک‘‘ آمد سے حافظ صاحب کی مقبولیت کا گراف تیزی سے اوپر اور اُنکے کاروبار کا گراف تیزی سے نیچے جانا شروع ہوگیا ہے۔ امکان ہے کہ حافظ صاحب کی اِن’’ ادبی خدمات‘‘ کے اعتراف میںادیب برادری بہت جلد انکے فریش جوس کے اڈے کو ’’پاک ٹی ہائوس‘‘ کی طرز پر ’’پاک جوس ہائوس‘‘ کا درجہ دے دے ۔جہاں حافظ صاحب کی صدارت میں منعقد ہونیوالے مشاعروں میں اُنکے شعروں پر داد دینے کے حساب سے صرف منتخب شرکاء کی تازہ پھلوں کے جوس سے تواضع کی جائیگی ۔ شروع شروع میں حافظ صاحب کے ہاں فریش جوس پی کر اپنی صحت بنانے کا یہ سلسلہ صر ف دو تین شاعروں،ادیبوں تک محدود تھا جو مفت کا جوس پینے کے ساتھ وہاں بیٹھے بیٹھے حافظ صاحب کے کھاتے میںایک آدھ ڈبی سگریٹ کی بھی پی جاتے تھے۔اس حوالے سے اصل ’’لٹ‘‘ اس وقت سے پڑی ہے جب سے انکے کسی ’’خیر خواہ ‘‘ نے حافظ صاحب کومارکیٹ میں اُن کا ذاتی شعری مجموعہ لانے کا راستہ دکھایا ہے۔اس خبر کے عام ہونے کے بعد تو جیسے حافظ صاحب کی مہمان نوازیوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے اُنکے ’’درِ دولت‘‘ پر چھوٹے بڑے اور مہنگے سستے شاعروں ،ادیبوںکی ایک لائن لگی رہتی ہے۔ جن احباب کو میرے اس دعوے پر ذرا سا بھی شک ہے وہ حافظ صاحب کا شعری مجموعہ ’’شام ہو گئی جاناں‘‘ پڑھ کر دیکھ لیں اگر اُن کو حافظ صاحب کے ایک ایک شعر میں فریش جوس،آئس کریم اور سگریٹوں کا ذائقہ ،خوشبویا دھواں محسوس نہ ہو تو میرا مشورہ ہے کہ وہ احتیاطََ ایک بار اپنا کرونا کا ٹیسٹ ضرور کروالیں۔ جہاں تک حافظ صاحب کی شخصیت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے میں یہ کہوں گا کہ حافظ صاحب ایک بے لوث محبت کرنیوالے انتہائی مخلص اورپیارے انسان ہیں ان کو ناصرف تعلق بنانے بلکہ اسے نبھانے کا ہنر بھی آتا ہے۔ ایک بارجس سے دوستی کا رشتہ استوار کر لیں پھر اُسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنا کر لیتے ہیں یا اُسکے ہو جاتے ہیں۔ یاروں کے یار اور اُس سے بھی بڑھ کر یاروں کے خدمت گار بلکہ ’’زکوٹا جِن‘‘ ہیں اور بالکل اُسی کی طرح ’’مجھے کام بتائو،میں کیا کروں ،میں کس کو کھائوں‘‘ کی گردان الاپتے ہمہ وقت دوستوں کی خدمت کیلئے دستیاب رہتے ہیں ۔اس حوالے سے میں حافظ صاحب کو تین چار بار اندرون و بیرون ملک جس محبت اور عقیدت سے استادِ محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کی خدمت کرتے دیکھ چکا ہوں وہ میرے لئے حیران کن ہونے کے ساتھ قابلِ رشک بھی ہے۔ اپنے گھر سے دور سفر میں جس محبت سے حافظ صاحب قاسمی صاحب کے کھانے پینے، سونے جاگنے،لباس اور آرام کا خیال رکھتے ہیں ایسا کم ہی دیکھنے میں آتاہے۔میں جب بھی قاسمی صاحب کیلئے حافظ صاحب کی خدمت کے والہانہ پن کو دیکھتا ہوں تو ایک طرف جہاں مجھے حافظ صاحب سے حسد محسوس ہوتا ہے وہاں قاسمی صاحب کی قسمت پر بھی رشک آتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مادہ پرستی کے اس دور میں بھی ایسی چاہت کرنے والا دوست دیا ہے۔ ایسے میں کبھی کبھار میرے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کاش حافظ صاحب سے ملتا جلتاکوئی سیکنڈ ہینڈ ’’پیس‘‘ لنڈے بازارمیں بھی دستیاب ہوتا تو شاید ہمارے جیسا ماڑا بندہ بھی انہیںخرید کر اپنا پکے والا دوست بنالیتا۔