بچپن کا وہ کلاس فیلو بلکہ بینچ فیلو میاں اسلم بشیر جس کے ساتھ پہلی جماعت سے لیکر آج بھی رشتہ اْسی طرح قائم ہے جیسے سکول میں تھا۔ اسکی اور اس خاکسار کی پچھلے دس بارہ سال سے ایک روٹین چلی آ رہی تھی کہ جیسے ہی مئی کا مہینہ شروع ہوتا وہ اور یہ ناچیز گرمیوں کے سیزن میں وقفے وقفے سے کئی بار مری چھانگلہ گلی کا ضرور چکر لگاتے جس میں اکثر اوقات راولپنڈی سے ہمارے دوست سعید خان کا بھی ساتھ ہوتا۔ اسے حالات کا ستم کہیئے یا ہماری بدنصیبی کہ کہ پچھلے سال اس وباء کی وجہ سے میری فیملی میں میرے بھائی اور پھر بھابی کی موت نے مجھے ایسے ذہنی صدمہ سے دوچار کیا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی نقل و حمل بالکل محدود کر دی اور یوں کئی سالوں سے جاری یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عرصہ دو سال بعد اس مہینے پہلی دفعہ اسلام آباد جانا ہوا جسکی روداد یہ خاکسار اپنے پچھلے تین کالموں میں لکھ چکا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اسلام آباد کے اس سفر نے میرے اعصاب پر حاوی تناؤ کو کم کرنے میں کافی مدد کی لیکن اس کے باوجود ذہنی طور پر اب بھی میں اس خوف کی کیفیت سے نکل نہیں پایا کہ پہلے کی طرح جب جی چاہا سفر پر نکل پڑوں۔ ایسے میں دو ہفتے بعد نہ چاہتے ہوئے وقت کے جبر کے ہاتھوں مجبور حالات نے ایک بار پھر راقم کو اسلام آباد یاترا پر مجبور کر دیا۔ اس بابت اس دفعہ جیسے ہی میاں اسلم بشیر کو خبر ہوئی کہ یہ خاکسار اسلام آباد کے لیے نکلا ہے تو اس نے چار پانچ گھنٹوں کی تاخیر بھی نہ ہونے دی اور کیا دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی گاڑی پکڑ کر اسلام آباد آ وارد ہوا اور مری چلنے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ دوستوں کی جائز خواہشات پر انکار ممکن نہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ ضروری کام نمٹانے کے بعد اپنی گاڑی اسلام آباد ہی چھوڑی اور میاں اسلم کے ساتھ چھانگلہ گلی کے لیے ہو لیا۔ قارئین آپ میں سے اکثر نے دیکھا ہو گا کہ بارہ کہو سے کوئی تین چار کلو میٹر کا فاصلے پر مری روڈ دو راستوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک سڑک پرانے راستے سے پرانی مری کی طرف چلی جاتی ہے جبکہ اسی مقام سے دوسرا راستہ نکلتا ہے جو مری ایکسپریس وے کہلاتا ہے جسے نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں مکمل کروایا اور یہ وہی راستہ ہے جسے آجکل مری چھانگلہ گلی اور نتھیا گلی جانے والے لوگ زیادہ تر استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے بیس تیس سالوں سے سْنتے آ رہے تھے کہ نواز شہباز دونوں بھائیوں نے اپنے ادوار میں گلیات کے حوالے سے قدرتی ماحول برقرار رکھنے کے لیے بڑی سخت پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور نئی تعمیرات پر پابندی لگائی ہوئی ہے یہ بات کہاں تک سچ ہے اس کا اندازہ آپ اس حقیقت سے لگا سکتے ہیں کہ جیسے ہی مری ایکسپریس وے پر ٹول پلازہ کراس کریں تو جس لحاظ سے اور جس پیمانے پر اس روڈ کی دائیں اطراف وہاں کی پہاڑیوں کی ایک تعمیراتی کمپنی کٹائی کر رہی ہے اور تعمیرات کر رہی ہے اسے دیکھ کر یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ واقعتاً ڈاڈے اگے کسی دا وس نہیں چلدا کیونکہ یہ سلسلہ اس دور حکومت کے پچھلے تین سال سے نہیں بلکہ دس سال سے زائد عرصہ سے چل رہا ہے جس میں نواز شہباز کا دور حکومت بھی شامل ہے۔ ماضی سے لیکر حال تک جب بھی اس کے پاس سے گزرتا اس علاقے کی بربادی پر دل ہی دل میں کْڑتا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میرے لکھنے کے باوجود ان کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس دفعہ جیسے ہی اس علاقے کو کراس کیا تو اس سے آگے شروع ہونے والے ایکسپریس وے کے دونوں اطراف لبِ سڑک تعمیرات کی شکل میں جو عجیب تماشا بلکہ اگر لفظ طوفانِ بدتمیزی استعمال کروں تو زیادہ مناسب ہو گا دیکھا تو دل کْڑنے سے آگے سیاپا فروشی پر اتر آیا اور فیصلہ کیا کہ شائد عالی عدلیہ میں سے ایسا کوئی ہو جو اس نشاندہی پر کوئی ایکشن لے لے۔ یہ میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں کر رہا جو بھی اس سڑک سے گزرے وہ جگہ جگہ پر نسب بورڈز پر درج عبارت کو پڑھ لے کہ سڑک کے دونوں اطراف اپ کتنے فاصلے کی دوری پر کوئی تعمیر نہیں کر سکتے لیکن یہ کھلے عام دعوت ہے کہ آپ میں سے جس کسی کا دل چاہے اپنی آنکھوں سے اسکا جائزہ لے لیں کہ اس قانون کی کتنی پاسداری کی جا رہی ہے۔ یقین جانیئے جس طرح تمام فوڈ چینز قطار در قطار اپنی فرنچائز اور کڑاہی تکہ شاپس کھل رہی ہیں پوری سڑک فوڈ سٹریٹ لگ رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاحتی مقامات پر ایسے سپاٹ ڈویلپ ہونے چاہئیں اور انکی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن اسکے لیئے ایک منصوبہ بندی کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن یہاں تو کمرشلائزیشن کے کیڑے نے سب کچھ پس پشت ڈال دی ہے۔ بات یہاں تک رْک نہیں رہی آپ مری میں داخل ہوں جس بیدردی کے ساتھ سڑک کے کنارے پہاڑیوں کی کٹائی اور منزل در منزل تعمیرات ہو رہی ہیں اگر کنکریٹ کے بنے ان تابوتوں کو نہ روکا گیا تو یقین جانیئے خاکم بدھن وہ دن دور نہیں جب زلزلے جیسے کسی سانحہ کی صورت میں یہ کنکریٹ کے تابوت انسانی تابوتوں میں نہ بدل جائیں دوئم اس سے نہ صرف مری کا رہتا سہتا حسن جسے آگے ہی کافی گہن لگ چکا نہ صرف مکمل طور پر تباہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ لباس ہی کسی چیز کے حْسن کو دوبالا کرتا ہے انسان بھی اگر بے لباس پھرے تو وہ بھی انتہائی بدنما اور بھونڈا لگتا ہے۔ اگر آپ نے ان گلیات سے پائنز چیڑ کے درختوں کا لباس چھین لیا تو پھر اپ مری کیا دیکھنے جائینگے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
شہر کے پیڑ کٹے قحط پڑا چھاؤں کا
ہائے وہ آخری منظر بھی گیا گاؤں کا
کنکریٹ کے تابوت
Oct 06, 2021