وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر 

25 ستمبر کو اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان نے ایک تاریخی خطاب کے ذریعے دنیا اور بالخصوص جنوبی ایشیا کو درپیش حقیقی مسائل کی طرف عالمی رہنماؤں کو متوجہ کیا۔ اس خطاب کے اہم نکات میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں اور دنیا پر اسکے مہلک اثرات، ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والے مسائل ، اشرافیہ کے ذریعے غریب ملکوں کی لوٹی گئی دولت کے نتیجے میں وہاں پیدا ہونیوالے ان گنت معاشی و سماجی مسائل، اسلامو فوبیا اور اس کا تدارک، افغانستان کی دگر گوں صورتحال اور ان سب سے بڑھ کر کشمیر میں ہندوستان کے نہ ختم ہونے والے مظالم کی طرف اقوام ِعالم کی توجہ مبذول کرائی۔ سب سے پہلے جناب وزیر اعظم نے کرونا وائرس کی تباہ کاریوں پر بات کی اور دنیا کو باورکرایا کہ کس طرح کوئی بھی عالمی وبا امیر اور غریب ممالک کی تفریق کے بغیر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے لہٰذا اس وقت سرمایہ دار معیشتوں کو ترقی پذیر ممالک کا استحصال کرنے کے بجائے انکے قرضے معاف کرنے چاہییں اور بلا تفریق تمام بنی نوع انسان کیلئے کرونا وائرس سے حفاظتی ویکسین کا جلد از جلد انتظام و انصرام کرنا چاہیے ۔ اس وقت بہت سے غریب ممالک سود درسود کے ایسے چُنگل میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ان کیلئے صحت کے شعبے پر توجہ دینے کیلئے خاطر خواہ وسائل ہی نہیں ۔ ایسے حالات میں کمزور معیشتوں کیلئے کرونا ویکسین کی خریداری کیلئے اربوں کا سرمایہ مختص کرنا نہایت کٹھن ہے ۔لہٰذا عالمی ادارۂ صحت کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں ۔ 
اسی طرح وزیر اعظم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا پرمرتب ہونے والے اثرات کی طرف عالمی رہنماؤں کی توجہ مبذول کرائی ۔یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ پاکستان سرفہرست ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید متأثر ہوسکتے ہیں ۔ حالانکہ ماحولیاتی تبدیلیوں میں جو عوامل کارفرما ہیں ان سب کے ذمے دار سرمایہ دار ممالک ہیں اور پاکستان کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پانی کی شدید قلت کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ آنیوالے سالوں میں پاکستان کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔پاکستان کی موجودہ حکومت نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے عُہدہ برآہونے کیلئے قابلِ رشک اقدامات کیے ہیں جن میں بلین ٹری سونامی منصوبہ بطورِ خاص قابلِ توجہ ہے ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بلین ٹری سونامی کو تمام ممالک کیلئے لائقِ تقلید منصوبہ قراردیا ہے ۔
جناب وزیر اعظم نے مسلمانانِ عالم کو درپیش اسلامو فوبیا جیسے سنگین مسئلے کا پس منظر اور پیش منظر واضح کیا ۔ یہ حقیقت بہت حد تک عیاں ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں عالمی طاقتوں نے اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلسل جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔ ایک منظم منصوبے کے تحت اسلام کو بطور مذہب اور مسلمانوں کو بطور قوم معتوب ٹھہرایاگیا۔یہاں تک کہ اسلام کو دہشت گرد مذہب بنا کر پیش کیاگیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، حقارت اور زہر آلود رویوں نے جنم لیا جس کے مختلف مظاہر ہمیںدیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں کیخلاف اس تفریق کے خاتمے کیلئے وزیر اعظم پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے اپیل کی کہ بین المذاہب مکالمہ عصر جدید کی ناگزیر ضرورت ہے اور اس سلسلے میں انتونیوگوتیر صاحب کواپنا خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
اسی طرح گزشتہ دو دہائیوں میں یورپ و امریکا نے مسلمان ممالک افغانستان، عراق اور شام وغیرہ کو تختۂ مشق بنائے رکھا۔ پیہم بمباری کے ذریعے افغانستان کے پہاڑوں کو سُرمہ بنادیاگیامگر نتائج لاحاصل! اب افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں شدید سیاسی ، انتظامی اور معاشی بحران منہ کھولے کھڑا ہے ۔ بیس سال کی طویل جنگ کے بعد اگر افغانستان کو ایسے ہی چھوڑدیا گیا تو وہاں ایک ایسا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے جس کے خوف ناک اثرات بالعموم پوری دنیا پر اور بالخصوص پڑوسی ممالک پر ہونگے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں تین ملین کے قریب افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں۔ ترکی اور شام میں لاکھوں شامی مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں ۔ اگر افغانستان میں استحکام نہ آیا تو پناہ گزینوں کا سیلاب پڑوسی ممالک کیلئے بے تحاشا مسائل کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا افغانستان میں سیاسی، انتظامی اور معاشی استحکام ناگزیر ہے ۔اگر مغربی ممالک کو افغانستان میں انسانی حقوق کی واقعتافکر ہے تو انھیںاس سلسلے میں افغانستان کی ڈگمگاتی معیشت اور لڑکھڑاتی حکومت کو سہارا دینے کی ضرورت ہے ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقاریر دنیا بھر کی خصوصی نشریات میں جگہ پاتی ہیں ۔دنیا کو درپیش اہم مسائل کو اجاگر کرنے کے علاوہ دنیا بھر کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھانے کا یہ ایک سنہری موقع ہوتا ہے۔ چنانچہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے اس تاریخی خطاب میں کشمیر کے مظلوموں کیلئے بھر پور آواز اٹھائی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وزیر اعظم صاحب کی تقریر کااہم ترین نکتہ مسئلۂ کشمیر تھا کیونکہ یہ اسلاموفوبیا کی سب سے خوفناک شکل ہے۔ اہلِ کشمیر کو محض مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے ۔ اس وقت نو لاکھ کے قریب ہندوستانی فوجی وادیٔ کشمیر کے کوچہ و بازار میں مقیم ہیں جس سے وادی ایک وسیع جیل کا منظر نامہ پیش کرتی ہے ۔ بی جے پی کی انتقامی ذہنیت کھل کے سامنے آچکی ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیںجب کشمیر سے قتل و غارت کی خبریں نہ آتی ہوں ۔ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو کچلا جارہا ہے ۔ خواتین کی عصمتیں محفوظ ہیں نہ معصوم بچوں کی زندگیاں ۔ کشمیر کی سیاسی قیادت ہندوستان کی بدنام زمانہ جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہے ۔ سیاسی نظر بندی کے دوران تحریک حریت کشمیر کے عظیم رہنماء سید علی گیلانی ؒ شہید ہوئے تو انکی میت کو ہندوستانی فوجی زبردستی اٹھا کر لے گئے اور تمام تہذیبی و انسانی اقدار کے برعکس زبردستی کسی نامعلوم مقام پر سید صاحبؒ کی تدفین کردی گئی ۔ اس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان نے مغربی ممالک کی دوغلی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کو باور کرایا کہ اگر اقوام عالم کا یہی رویہ رہا تو دو ایٹمی ممالک کے درمیان یہ تنازع کسی بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔ 
 بحیثیت مجموعی جناب وزیر اعظم کا خطاب جامع اور مربو ط تھا جس نے پاکستان ، عالم اسلام اور دنیا بھر کو درپیش سنگین چیلنجز کا بھرپوراحاطہ کیا ۔ 

ای پیپر دی نیشن