ہندو خاتون مرنے سے قبل ایک مسلمان نوجوان کو نئی زندگی بخش گئیں،میڈیارپورٹ کے مطابق فرید کا خاندان ممبئی کے علاقے مہیم میں مقیم ہے۔ فرید اپنی والدہ مہرالنسا اور چھوٹے بھائی عمران کے ساتھ رہتے ہیں۔ سنہ 1992 میں ہونے والی ممبئی فسادات میں فرید کے والد ہلاک ہو گئے تھے، اس وقت فرید کی عمر تین برس تھی۔فرید نے بتایا پہلے میں صرف کام کے دوران ہی تھکاوٹ محسوس کرتا تھا، مگر پھر ایسا پورا پورا دن ہونے لگا اور میں تھکا تھکا محسوس کرتا۔ مجھے ہر وقت کھانسی رہتی تھی۔ پہلے میں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ میری طبعیت کو دیکھتے ہوئے میرے گھر والے مجھے ہسپتال لے گئے، جہاں مجھے دل کی بیماری تشخیص ہوئی ، فرید کے بھائی عمران کو دل عطیہ کرنے والی خون کے چند نمونے ٹیسٹ کروانے کے لیے دیے گئے۔ ان نمونوں پر لکھے نام کو دیکھ کر پتہ چلا کہ دل عطیہ کرنے والی خاتون ہندو ہیں۔عمران نے کہا کہ میں نے خون کے نمونوں پر نام پڑھا، میں فورا اپنی والدہ کے پاس گیا۔ میں نے انھیں یہ بتایا اور ساتھ کہا کہ انسانیت کے مذہب سے بڑا کوئی اور مذہب نہیں ہے۔اس سرجری کے لیے فرید کے خاندان کو تقریبا 20 لاکھ انڈین روپے درکار تھے۔ فرید چونکہ درزی کا کام کرتے تھے اور گھر کے مالی حالات بھی کچھ اتنے اچھے نہ تھے اس لیے یہ خاندان اتنا خرچہ برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا۔فرید کے بھائی عمران نے کہاکہ جب انھیں فرید کی بیماری کے بارے میں پتہ چلا تو خاندان والوں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی۔موت کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے والی خاتون کی عمر 41 برس تھی اور انھیں برین ہیمرج کے بعد چھ ستمبر کو ہسپتال لایا گیا تھا۔ بعدازاں 12 ستمبر کو ڈاکٹروں نے خاتون کو برین ڈیڈ قرار دے دیا۔انڈیا میں ٹرانسپلانٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے مطابق خاتون کے اہلخانہ نے ان کے چھ اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں دل، گردے اور چار دیگر اعضا شامل تھے۔