عمران خان نے پشاور میں لوگوں کے ایک گروہ سے امریکی سازش کیخلاف تحریک میں تعاون کا حلف لیا۔ حلف میں ”جان قربان کر دیں گے“ کے الفاظ بھی شامل تھے۔ پی ٹی آئی کے مطابق ہجوم نوجوانوں کا تھا جبکہ مخالفانہ رپورٹ یہ آئی ہے کہ صوبے کے سرکاری ملازم بحکم لائے گئے تھے۔ خوشی کی بات ہے، سرکاری ملازم بھی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ جانیں اسلام آباد پہنچ کر قربان کی جائیں گی یا راستے میں ہی اس فریضے سے سبکدوشی حاصل کر لی جائے گی۔ 25 مئی کو اٹک پل پر جس قافلے نے گزر کیا، اس کے شرکا کی تعداد دس ہزار تھی، جب یہ قافلہ آگے بڑھا تو آٹھ ہزار رہ گئے اور اسلام آباد پہنچتے پہنچتے چھ ہزار باقی بچے۔ مطلب باقیوں نے راستے ہی میں فریضہ مکمل کر دیا۔
خیر، جس انداز سے خان صاحب اور سٹیج پر موجود پارٹی قیادت نے ہاتھ کو ترچھا اوپر کر کے حلف لیا، اس کی تصویریں دیکھ کر جرمنی کے ایک صاحب یاد آ گئے۔ انہوں نے 1938-39ءکے زمانے میں اسی قسم کے حلف کی بنیاد رکھی تھی۔ اب ان صاحب کا نام یاد نہیں آ رہا۔ ان کی پارٹی بھی زبردست اور جانیں قربان کرنے والی تھی، بدقسمتی سے اس پارٹی کا نام بھی یاد نہیں آ رہا۔
______________
عمران خان کو بہت خوش ہونا چاہیے کہ انہیں بنا مانگے ہی معافی مل گئی۔ ان سے تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ خاتون مجسٹریٹ کو دھمکانے اور توہین عدالت کے کیس میں غیر مشروط معافی نامہ لکھ کر داخل کریں۔ غیر مشروط تو کیا، انہوں نے مشروط معافی بھی نہیں مانگی۔ البتہ مشروط معذرت کی کہ اگر ....یعنی کہ اگر....انہوں نے ریڈ لائن کراس کی ہے تو وہ معذرت کے لیے تیار ہیں۔
خان صاحب کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان کی اگر مگر کو اچھا رویہ قرار دے کر نہ صرف یہ کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی بلکہ ان کی اچھی نیت کی تعریف کر کے ستائشی سند بھی جاری کر دی گئی۔ ورنہ پیچھے کے چند برس میں ایک سابق وزیر اعظم سمیت دس سیاستدان اسی قسم کے بلکہ اس سے ہلکے ”جرم“ میں غیر مشروط معافی مانگ کر بھی سزا اور نااہلی سے نہیں بچ پائے تھے۔
خان صاحب کو بہت خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ اداس ہیں اور گھور اداس اور مشتعل ہیں اور غصے و اشتعال کی گھنگھور گھٹا نے انہیں گھیر رکھا ہے۔ یہ راز ہے کیا معلوم نہیں؟
______________
راز تھوڑا تھوڑا البتہ معلوم ہے۔ وہ مریم نواز کی اس کیس میں بریت پر اداس، ناراض اور برہم ہیں جس میں انہیں کچھ سال سزائے قید سنائی گئی تھی۔ بریت یوں ہوئی کہ عدالت کے بار بار اور بار بار اور بار بار پوچھنے کے باوجود نیب یہ نہیں بتا سکا کہ مریم کا جرم کیا ہے، جرم کا ثبوت کہاں ہے، ثبوت کی دستاویز کہاں ہے، گواہ کہاں ہے اور گواہی کہاں ہے۔
عدالت نے کئی برس تک جواب کا انتظار کیا۔ آخر بری کر دیا، خان صاحب کو غصہ ہے کہ جہاں اتنے برس انتظار کیا، وہاں چند برس اور کیوں نہ کیا۔
مریم نواز اب سیاست کے لیے آزاد ہیں۔ اور پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ وہ ”ٹکّر“ کی سیاستدان بنیں گی بلکہ ٹکّر سے بھی کچھ زیادہ تگڑی۔ خان صاحب کی اداسی اس امکان بلکہ خدشے سے اور بھی گھمبیر ہو گئی ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ چیلنج کیا تھا کہ پہلی بار آپ کو ٹکّر کے لوگ ملے ہیں۔ بعدازں ایک خفیہ ملاقات میں ٹکّر والی بات پر معذرت بھی کر لی گئی تھی اور بتایا کہ ہم نے ٹکّر نہیں، ٹِکر TICKER کہا تھا جو ٹی وی سکرین پر نیچے کی طرف چلتے ہیں۔ ہمارا مطلب تھا کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کے ٹِکر ٹی وی پر سب سے زیادہ چلتے ہیں۔
______________
مریم نواز لندن چلی گئیں۔ خبر گرم ہے کہ نواز شریف کو لے کر ہی لوٹیں گی۔ ان کے آنے کی خبر کچھ زیادہ ہی گرم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ آج کل میں آنے والے ہیں لیکن اس مہینے یا اگلے مہینے کی بات ضرور کی جا رہی ہے۔
خان صاحب جب اقتدار میں تھے تو انہیں یقین دلایا گیا تھا، بالائی حلقوں کی طرف سے بھی اور ”رحونیاتی قوتوں“ کی طرف سے بھی کہ نواز شریف کبھی نہیں آئیں گے اور مریم نواز کبھی بری نہیں ہوں گی۔ رحونیاتی طاقتوں نے تعویذ دھاگے کے مسلسل عمل سے اس پکّی بات کو اور بھی پکّا کرنے کی کوشش کی اور یقین کی منزلوں پر خان صاحب اتنا اوپر چڑھے کہ خیال ہی خیال میں صدارتی نظام نافذ کر کے تاحیات بادشاہی بھی ”ڈن“ کر لی لیکن اب
کھلی جو آنکھ تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔
______________
لانگ مارچ یا سڑکوں پر دھرنے؟۔ خان صاحب کا حتمی پلان کیا ہے۔ اس راز سے پردہ اس لیے نہیں ا ٹھایا جا سکتا کہ خود خان صاحب ابھی تک مخمصے کا شکار ہیں۔ صدمے والی بات یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے ان دونوں زیر غور ”آپشنز“ کو صرف ساڑھے چار افراد تک محدود رکھا تھا کہ کہیں لیک نہ ہو جائے لیکن دونوں آپشن پوری تفصیل سے لیک ہو کر حکومت تک پہنچ چکے ہیں۔ خان صاحب کی ”رازداری“ تو پکی تھی، یہ ”لیکج“ کیسے ہو گئی؟۔ لگتا ہے، حکومت نے بھی کہیں نہ کہیں سے کچھ ”روحونیاتی“ طاقتوں کا بندوبست کر لیا ہے۔ کوئی ہمزاد، کوئی موکل، کوئی پیر ایسا اسے مل گیا ہے جو وہاں کی خبر نکال لاتا ہے۔
تو لیک شدہ پلان یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ کیا تو اسلام آباد کے ، کے پی کے ہاﺅس، پنجاب اور گلگت ہاﺅس کے علاوہ ایک اور عمارت کہ ”قصر سفید“ کے نام سے جانی جاتی ہے، کام میں لائی جا ئیں گی اور کئی ہزار افراد تھوڑے تھوڑے کر کے پہلے سے ان عمارتوں میں پہنچا دئیے جائیں گے جو لانگ مارچ کے روز اچانک نمودار ہو کر حکومت کی سٹّی گم کر دیں گے۔ اب حکومت نے ان چاروں عمارتوں کے گرد دائرہ لگا دیا ہے۔ دوسری صورت سڑکوں کو گھیرنے اور انہیں ”چوک“ کرنے کی ہے۔
دونوں صورتوں کے لیے پختونخواہ سے کمک پر سارا نہیں تو بیشتر انحصار ہے، فی ضلع چھ چھ ہزار لوگ لانے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے اور انتباہ کیا گیاہے کہ 6 ہزار سے کم آئے تو ٹکٹ نہیں ملے گا۔
پنجاب سے تو عملاً ”معذرت“ کا ماحول ہے۔ 25 مئی کو بھی زیادہ انحصار کے پی کے پر تھا۔ میڈیا پر مسلسل آیا تھا کہ ڈیڑھ لاکھ انقلابی لانے کا ہدف دیا گیا تھا اور بڑے سخت الفاظ میں۔ لیکن دس ہزار ہی آ سکے، باقی ایک لاکھ چالیس ہزار نے دعاﺅں کے ساتھ ان دس ہزار کو رخصت کیا۔
دیکھئے، اب کے پی کے کے 36 اضلاع میں سے کتنے نکلتے اور کتنا ہدف پورا کرتے ہیں....اور دیکھئے، حکومت کا ”خفیہ پلان“ کب لیک ہوتا ہے۔
______________