آج کل سیاسی بیانیہ یہ بنا ہوا ہے کہ اگر کسی سے اقتدار چھن جائے تو مخالفین کو جانور اور غدار قرار دیا جاتا ہے، اقتدار واپس نہ ملا تو لوگوں پر مشرک اور اسلام سے خارج ہونے کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ عوام کو آئین شکنی پر اکسایا جاتا ہے، ان کا بیانیہ جمہوریت اور عوامی حقوق کے منافی ہوتا ہے، جبکہ آئین میں واضح طور پر حاکمیت صرف اللہ تعالی کی تسلیم کی گئی ہے، اور اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کو دیا گیا ہے۔ آئین پاکستان میں قرآن و سنت کے منافی کوئی فیصلہ یا قانون نہیں بن سکتا، اور اس طرح کے بیانات آئین توڑنے کے مترادف ہیں۔ یہ وہی آئین ہے جس نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے، اور اس طرح کے لوگ یہ شقیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری جانب ادارے اگر کسی کو اقتدار میں لانے اور لے جانے کا باعث بن جائیں تو ملک عدم استحکام کا شکار ہوگا اور کبھی معاشی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکے گا۔ آئین دراصل سب کا چوکیدار ہے، ماضی میں آئین کی طے شدہ حدود سے نکلنے پر ملک دو لخت ہوا تھا، اور 1973کا آئین اسی لئے بنایا گیا تھا کیونکہ 1971میں آئین موجود نہ ہونے کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہوا تھا۔ اس طرح کے بیانیے سے 1971کی صورتحال اور ملک میں نظریہ ضرورت کو پھر فروغ دیا جا رہا ہے۔ اداروں کو سیاست میں ملوث ہونے کی دعوت ملک کو 'بنانا ری پبلک' بنانے کی کوشش ہے جس کا مقصد فوج میں بغاوت کرانا ہے، جس سے ایٹمی ملک پاکستان کیلئے سخت نتائج نکلیں گے۔ ایسا بیانیہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلوں کی براہ راست خلاف ورزی ہے اور ہم سب کو ایسے بیانیہ سے بچنا ہوگا۔