اندازہ آپ خود لگالیں کہ جس ملک کے وزیراعظم ہائوس میں اراکین پارلیمنٹ کی گفتگو لیک ہو رہی ہو‘ جہاں حساس نوعیت کے امور‘ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی ایسے حساس موضوعات کے ان کیمرہ اجلاسوں کو آڈیو ٹیپس میں ریکارڈ کرلیا جاتا ہو‘ ایسے حالات میں سرکاری حساس اداروں اور صوبائی وزراء اعلیٰ کے دفاتر میں کی گئی پالیسی گفتگو اور خط و کتابت کے بارے میں یہ کیسے یقین کرلیا جائے کہ ادارے‘ سربراہ مملکت‘ اراکین پارلیمنٹ اور قومی سلامتی سے متعلقہ محکموں کی سکیورٹی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ وہ وزیراعظم ہائوس‘ یا ملکی سلامتی کے وہ حساس ادارے جہاں ’’چڑیا پر‘‘نہ مار سکتی ہو‘ وہاں آڈیو ٹیپس میں کیسے خفیہ معلومات ریکارڈ کرکے عوام تک پہنچا دی گئیں۔ یا تو پھر وزیراعظم ہائوس میں کوئی ایسا خفیہ ریکارڈنگ سسٹم نصب ہے جس کی خبر وہاں تعینات سکیورٹی‘ آئی بی یا سپیشل برانح تک کو نہیں۔ اور یا پھر کوئی ایسا آسیبی سایہ ہے جس پر ملک دشمن ’’جنوں اور ڈائنوں‘‘ کا پورا پورا کنٹرول ہے۔ آڈیو لیکس کا یہ معاملہ محض وزیراعظم ہائوس کا نہیں بلکہ میرے نزدیک حساس قومی رازوں کے افشا ہونے کی انتہائی محتاط انداز سے کی گئی اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس میں گھر کے ان بھیدیوں کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے غیروں سے اپنی اس ضمیر فروشی کا صلہ طے کر رکھا ہے۔ مذکورہ آڈیو ریکارڈنگ کب سے کی جا رہی تھی؟ اتنی حساس ترین عمارت میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی 24 گھنٹے ڈیوٹی کے باوجود آڈیو کیسے ریکارڈ ہوئی‘ یہ ہیں وہ بنیادی سوالات جنکے جواب کے حصول کیلئے ہر محب وطن پاکستان فکرمند ہے۔ اس حساس معاملے کی مکمل انکوائری بلاشبہ فوری طور پر ناگزیر ہے جبکہ ٹھوس بنیادوں پر جامع تحقیقات کیلئے آئین کے تحت کارروائی بھی ضروری ہے۔
آڈیو لیکس کے بعد موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے اگلے روز یہ انکشاف کیا کہ وزیراعظم ہائوس سے ڈپلومیٹک سائفر غائب ہے۔ سائفر کہتے کسے ہیں؟ مختصر ترین تشریح یہ کہ بیرون ملک مقیم کسی سفیر یا ہائی کمشنر کی جانب سے اپنے ملک کے سربراہ کو بھجوایا ایسا سفارتی مراسلہ یا خط جس میں حساس نوعیت کی معلومات ہوں اور جنہیں اپنے ملک کے سربراہ کے نوٹس میں فوری لانا ضروری ہو‘ سفارتی زبان میں سائفر کہلاتا ہے۔ یہی وہ سائفر ہے جو امریکہ میں ہمارے سفیر نے مبینہ طور پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو بھجوایا جس میں ایک اعلیٰ امریکی افسر نے پاکستان میں عمران خان کو مبینہ طور پر خبردار کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ وزارت عظمیٰ سے انہیں فوراً ہٹا دیا جائیگا اگر انہوں نے امریکی پالیسی کیخلاف کوئی قدم اٹھایا۔ یہی وہ خط تھا عمران خان نے جسے اپنے متعدد جلسوں میں لہرا کر کولیشن حکومت کی اسے مبینہ سازش قرار دیا جبکہ سائفر کو وزیراعظم ہائوس ریکارڈ میں رکھ دیا گیا جس کی ایک کاپی صدر پاکستان کو اور دوسری کاپی مبینہ طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا دی گئی۔ مگر اس وقت کے حزب اختلاف کے لیڈر سمیت مخلوط حکومت کے متعدد رہنمائوں نے سائفر کو محض کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے عمران خان کی سیاسی چال قرار دیا۔ موجودہ وزیراعظم محمد شہبازشریف کے حالیہ انکشاف کے بعد کہ وہ سائفر وزیراعظم ہائوس سے اب غائب کیا جا چکا ہے‘ پاکستان کی سیاست پر مزید کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے سب سے بڑا سوال یہ کہ سائفر ’’اگر اتنی اہم اور حساس دستاویز تھی تو اپوزیشن اسے سیاسی چال اور محض کاغذ کا ٹکڑا کیوں قرار دیتی رہی؟ آج جب سائفر کی حقیقت آشکار ہوئی تو وزیراعظم سے یہ سفارتی مراسلہ کیسے غائب ہو گیا؟
سوال اب یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ وزیراعظم ہائوس سے پہلے آڈیو اور اب سائفر کے آناًفاناً غائب کئے جانے کے پس پردہ آخر وہ کونسے ایسے عوامل ہیں جن سے ملک کے حساس امور پر کاری ضربیں لگائی جارہی ہیں۔ پاکستان کے حصول کو کیا اس لئے ممکن بنایا گیا کہ گھر کے چراغوں سے ہی اسے جلانے کی ناپاک کوششیں کی جائیں۔ حکومت کا اب یہ فرض ہے کہ بغیر تاخیر سائفر پر کمیشن ترتیب دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آسکے۔ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ سائفر پہلے اگر محض کاغذ کا ٹکڑا تھا تو اب اتنا اہم کیسے ہو گیا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سلامتی کے حوالہ سے موضوع بحث بنے اس سفارتی مراسلے کی مکمل طور پر تحقیق کی جائے۔ سیاسی سکورنگ اور محض سائفر کی چوری پر دیئے بیانات سے احتراز کیا جائے کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔
ایف آئی اے کی ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم آڈیو لیکس اور سائفر کیلئے متعین کی جاچکی ہے جو تمام معاملات کی صاف شفاف تحقیقات کریگی۔ سائفر کی گمشدگی یا چوری پر بھی تحقیق لازم ہے تاہم ایف آئی اے کے متعلقہ افسران بخوبی جانتے ہیں کہ سائفر کی ایک اوریجنل کاپی وزارت خارجہ کے ریکارڈ میں بھی رکھی جاتی ہے جو بوقت ضرورت تحقیقاتی اداروں کو آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے۔ میری رائے میں بنی گالہ چھاپہ مارنے یا دستاویز میں ٹیمپرنگ ظاہر کرنے سے زیادہ اہم بات تحقیقات ہے جسے ہر حال میں عوام کے سامنے لانا ناگزیر ہے۔
دوسری جانب سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات بدستور متاثرین کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ قومی اداروں میں ریلوے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ بیشتر پل اور سڑکیں تباہ ہو گئے ہیں۔ میرے شہر کی ریل گڈی کے سلیپرز کب سے اپنی عمر پوری کر چکے ہیں مگر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دے پا رہے۔ ایک محتاط اندازے کیمطابق ریلوے انفراسٹرکچر کو 11 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے۔ ہم باکمال لوگوں کی لاجواب سروس پہلے ہی جواب دے چکی ہے۔ اس لئے ریلوے میں اے سی اور وی آئی پی سے زیادہ ٹریکس اور سگنلز ایسے پراجیکٹس ہیں جن پر اولین کام کرنے کی ضرورت ہے ورنہ گڈی تو چل ہی رہی ہے۔