سڑکوں پر بدتمیزیاں 

ملکِ عزیز میں یوں تو بہت سی چیزیںنرالی ہیں لیکن گلی محلوں اور رابطہ سڑکوں سے لے کر بڑی شاہراہوں پر مختلف گاڑیاں چلانے والے کچھ افراد بدتمیزی، قانون شکنی اور جملہ اخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑانے کا جو مظاہرہ کرتے ہیں اس کا احوال ناگفتنی بہ ہے۔ یہاں جن گاڑیوں کا ذکر ہم کرنے جارہے ہیں ان میں چھوٹی بڑی کاریں،ویگنیں، بسیں، رکشے، ٹرک، ٹریکٹر ٹرالیاں، موٹر سائیکل، گدھاگاڑیاں اور تانگے وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ کاروں اور موٹر سائیکلوں کی بات کریں تو گھر سے گھر تک یعنی گھر سے نکلنے اور پھر گھر واپسی تک بدتمیزیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چلتاہے۔ اگر کسی دوسری سواری یا سواریوں نے بھی ساتھ جانا ہے تو گلی میں نکلتے ہی پہ در پہ ہارن دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی لوگ جب گھروں کو واپس لوٹتے ہیں توگیٹ پر آکر خواہ آدھی رات ہی کیوں نہ ہواتنا تیز اور مسلسل ہارن دیتے ہیں کہ ارد گردکے مکین جن میں بیمار، ضعیف افراد اورطلبا وغیرہ بھی شامل ہیں بے آرام ہو جاتے ہیں۔ مہذب لوگ یا تو اپنے پاس گیٹ کی ڈپلیکیٹ چابی رکھتے ہیں یا پھر گاڑی سے اتر کر ڈور بیل بجاتے ہیں۔ایک کلیے کے مطابق محفوظ ڈرائیونگ کے لیے آپ کو اگلی گاڑی سے جو کم از کم فاصلہ رکھنا ہوتا ہے وہ گاڑی کی رفتار کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر رفتار 60 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے تو درمیانی فاصلہ تقریباََ60 فٹ کا ہوگا یعنی جتنی رفتار اتنے فٹ فاصلہ۔ مگر جہالت اور بے صبری کا یہ عالم ہے کہ بعض لوگ 60/70 کی رفتار پہ بھی بمشکل دو سے تین فٹ کا فاصلہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ایسے نا عاقبت اندیشوں کی وجہ سے کئی دفعہ کئی گاڑیاں آگے پیچھے ٹکرا ئی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اگر کوئی محتاط شخص مناسب فاصلہ رکھ کر چلتا ہے تو یہ مخلوق دائیں بائیں سے اوور ٹیک کرتے ہوئے اس فاصلے کو فوراََ پر کر دیتی ہے۔ دوطرفہ ٹریفک والی سڑکوں پر سامنے سے آنے والے بعض ڈرائیور حضرات بلا وجہ ہیڈ لائٹس کا چمکارا مارتے رہتے ہیں۔ اس قبیح حرکت سے سامنے والے ڈرائیور کی آنکھیں تکلیف دہ حد تک چندیاہ جاتی ہیں۔ بمپر ٹو بمپر چلتی ٹریفک میں بھی بعض بگڑے اور سر پھرے عموماً نوجوان ڈرائیور حضرات راستہ لینے کے لئے لائیٹ پہ لائیٹ اور ہارن پہ ہارن دیئے جارہے ہوتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ آگے جانے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں، جاؤ گے کہاں؟ 
ہارن کا بے جا استعمال کرنے میں مختلف پبلک اور پرائیویٹ اداروں کی بسوں کے ڈرائیور اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کے ہارن جب بجتے ہیں تو اردگرد ایک ارتعاش سا پیدا ہوتا ہے۔ بند شیشوں والی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کے بھی چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ان بسوں میں الا ماشااللہ پریشر ہارن لگے ہوتے ہیں اور اگر آپ بند شیشوں والی گاڑی میں بھی بیٹھے ہوں تو بھی آپکے کانوں کے پردے پھاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ سائلنسر کے بغیر موٹر سائیکلوں کا ہے۔ یہ کانوں اور دماغوں کو چیرتے ہوئے سڑک سڑک گلی گلی بلا روک ٹوک گھومتے دکھائی/سنائی دیتے ہیں۔ پھر گونج دار آواز والی ہیوی بائیکس ہیں جو خصوصاََ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کا سکون و سکوت اس بے دردی سے تباہ کرتی ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بشمول بسیں، ٹرک، ویگنیں،ٹریکٹر ٹرالیاں اور رکشے وغیرہ بدتمیزیوں کی اپنی الگ داستانیں روزانہ کی بنیاد پر بلا روک ٹوک رقم کرتے جا رہے ہیں۔ 
مٹی، ریت اور بجری وغیرہ کی حمل و نقل کرنے والے ٹرک، ٹرالیاں، لوڈر رکشے، ریڑھے اور گدھا گاڑیاں وغیرہ بھی راستوں میں بد تمیزیاں کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ یہ ان سے متعلقہ مٹیریل سڑکوں پر جگہ جگہ گرتا رہتا ہے جس سے نہ صرف آلودگی پھیلتی ہے بلکہ دوسری گاڑیوں کے ٹائروں کو وغیرہ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ گدھا گاڑی اور ریڑھے تانگے والے جانور کے پیچھے پلی نہیں باندھتے۔ چنانچہ لید سڑک پر گرتی رہتی ہے جو گندگی پھیلانے کے ساتھ ساتھ ٹیٹنس جیسی مہلک بیماری کا باعث بن سکتی ہے۔ ان تمام قسم کی بدتمیزیوں اور بد اخلاقیوں کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کچھ تو قوانین موجود ہیں مگر ان پرعمل درآمد نہیں ہوتا۔ ارباب اختیار سے استدعا ہے کہ قانون شکنوں کے خلاف ضروری کاروائی تسلسل سے کی جائے۔ اگر بیس سے تیس فیصد کے خلاف بھی روزانہ کی بنیاد پر کاروئی ہوتی رہے تو بہت حد تک صورت حال میں بہتری آ سکتی ہے۔ ورنہ پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ہر چارا گر کو چارا گری سے گریز تھا
 ورنہ مجھے جو دکھ تھے کچھ لا دوا نہ تھے

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...