کئی سال کی جنگ کے باوجود روس افغان تجارتی تعلقات استوار


سیاسی ڈائری
میاں غفار احمد
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 157 میں 16 اکتوبر کو پھر سے ضمنی انتخابات کا معرکہ ہونے جا رہا ہے جس میں ملتان کے دونوں بڑے مخدوم ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں۔ سابق وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کا مقابلہ سابق وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی سے ہے جو کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور اس حلقے سے الیکشن لڑنے کے لئے اس پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار ہیں، جی ہاں وہی پی ٹی آئی جو اس نظام کو بدلنے کی سب سے بڑی دعوے دار ہے۔ ضمنی انتخابات التوا کا شکار ہونے کی وجہ سے اب دوبارہ وہ رنگ نہیں جم سکا اور انتخابی ماحول میں وہ سرگرمی نہیں رہی جو التوا سے پہلے تھی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سید یوسف رضا گیلانی بہت منظم انداز میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور تمام دھڑوں کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم بھی ہر حوالے سے بھرپور ہے مگر عمران خان کی مقبولیت کا عنصر نتائج میں اچھا خاصا فرق ڈال سکتا ہے۔ یہاں جوڑ توڑ اور برادری ازم کی سیاست دیہاتی حلقے تک محدود ہے مگر شہری حلقے میں پارٹی ووٹ بہت مستحکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ شہری حلقے میں پی ٹی آئی مضبوط پوزیشن رکھتی ہے البتہ دیہاتی حلقے میں گیلانی لیڈ دیں گے تاہم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دونوں مخدوموں میں مقابلہ بہت کانٹے دار ہے جہاں تک روابط کا تعلق ہے تو اس معاملے میں یوسف رضا گیلانی کو اپنی رواداری کے حوالے سے فوقیت حاصل ہے۔
           حیران کن امر یہ ہے کہ کئی سال کی جنگ اور لاکھوں جانوں کی قربانی کے باوجود بھی افغانستان اور روس میں تجارتی تعلقات استوار ہو گئے ہیں اور روس نے پٹرولیم مصنوعات کی خریداری کا افغانستان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس کے بعد روسی پٹرولیم مصنوعات کی تیسری بڑی گھیپ بھی افغانستان پہنچ چکی ہے جبکہ افغانستان اپنے ہمسایہ ملک ایران سے بھی تیل خرید رہا ہے اور تیزی سے اپنی اکانومی کو مستحکم کر رہا ہے دوسری طرف پرائی ’’جنگ‘‘ میں اپنی معیشت تباہ کرنے والا پاکستان ہزاروں جانیں گنوا کر اور کھربوں روپے کا نقصان کر کے بھی اس قابل نہیں ہو پا رہا ہے کہ دنیا میں جہاں سے سستا تیل ملے خرید سکے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر پابندی ہے مگر لاکھوں لیٹر سمگل شدہ ایرانی تیل ملک بھر میں فروخت ہو رہا ہے۔ یہ پیسہ ملکی اکانومی کو بہتر کرے نہ کرے مگر اس سے ہزاروں گھرانے روزگار کما رہے ہیں۔
 کپاس جسے سفید سونا بھی کہا جاتا ہے، کی سیلاب کی وجہ سے پیداوار میں سندھ میں 40 فیصد تک کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے جبکہ پنجاب میں کپاس کی کاشت کا ایریا گزشتہ سال کے مقابلے میں 16 فیصد بڑھنے کی وجہ سے مجموعی طورپر کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کے لگ بھگ ہونے کا سیلاب کے باوجود قوی امکان ہے۔ محکمہ زراعت نے کپاس کے حوالے سے صدیوں پرانے فارمولے جسے آئی پی ایم کا نام دیا جاتا ہے کو دوبارہ سے متعارف کروا کر جو رپورٹس مرتب کی ہیں ان کے مطابق جن کاشتکاروں نے کیمیاوی سپرے سے پرہیز کر کے آئی پی ایم فارمولا اپنایا انہوں نے فی ایکڑ 34 سے 35 من اوسط پیداوار حاصل کی جبکہ کیمیائی مادوں یعنی پیسٹی سائیڈ کے استعمال والے علاقوں میں یہی پیداوار تقریباً 20 من فی ایکڑ رہی۔ زرعی ماہرین کے مطابق جنوبی پنجاب نے کپاس کے علاقوں میں سفید مکھی کے لئے جو دیسی محلول تیار کیا گیا اس میں نیم کا پانی، اک کا پانی، تمباکو اور کوڑ تمبہ کی مقدار برابر رکھی گئی جبکہ ہینگ کی مقدار بہت کم ڈال کر یہ محلول سپرے کیا گیا۔ اس  سپرے نے اس سال بھی تاحال بہت ہی شاندار نتائج دئیے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پیسٹی سائیڈز سپرے پر فی ایکڑ اخراجات 3 سے 6 ہزار تک بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس دیسی طریقہ پر فی ایکڑ 6 سے 7 سو روپیہ خرچ آتا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق ساہیوال،ٹوبہ ٹیک سنگھ، اوکاڑہ، فیصل آباد، جھنگ اور چنیوٹ کے جن علاقوں میں کاشتکار کپاس کی بوائی ترک کر چکے تھے اس آئی پی ایم طریقہ کار سے وہ دوبارہ کپاس کی کاشت کی طرف راغب ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت پنجاب میں 16 فیصد زائد رقبے پر کپاس کاشت ہوئی ہے اس صورتحال میں غالب امکان ہے کہ جن علاقوں میں سیلابی ریلے کی وجہ سے کپاس کی فصل تباہ ہوئی تھی وہ اس نئے شامل ہونے والے 16 فیصد اضافی رقبے کی وجہ سے کور ہو جائے گی۔ 
        معلوم نہیں کون لوگ گندم اور آٹے کی قلت کی باتیں کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ  حکومت کے سٹاک میں گندم کی کمی ہے اور نہ نجی شعبے میں گندم کی قلت ہے۔ ابھی بھی وافر مقدار میں سرکاری اور نجی سیکٹر میں گندم کا سٹاک موجود ہے اور آٹے کی قیمت میں حالیہ اضافہ تو رواں سال گندم کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے پاس بنک کے قرضوں سے 40 سے 50 ہزار بوری کا سٹاک معمولی بات ہے مگر اس کے باوجود بعض عناصر مخصوص مقاصد کے تحت ایسی من گھڑت افواہیں پھیلاتے ہیں۔ آج بھی حکومت پاکستان گلگت‘ بلتستان کو سبسڈائز آٹا فراہم کر رہی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ 40 سال سے جاری ہے۔ گزشتہ سیزن میں بھی وہاں آٹا 17 روپے کلو تک بھی فروخت ہوتا رہا ہے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن