تحریر :سحر شعیل
خدا جانے یہ کون سی نیکی کا صلہ ہے کہ سرکارِ دوعالم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی ذاتِ مبارکہ کے بارے میں آج خامہ فرسائی کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔یہ ایسا موضوع ہے جس پر قلم کاروں نے بارہا اپنے علم و ہنر کے موتی پروئے۔ یہ موضوع جس قدر رعنائیاں لئے ہوئے ہے اتنا ہی اس ضمن میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ احمدِ مجتبیٰ ،سرورِکونین کے حضور ذرا سی بے ادبی دنیااور آخرت دونوں میں ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔
آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت عام آدمی کو اور خاص کر طلبا کو سنتِ نبوی اہمیت سے روشناس کروانا اور ان کی زندگیوں میں سنتِ رسول کو زندہ رکھنا ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہماری زندگیاں سنت نبوی کے بغیر ادھوری ہیں،بے معنی ہیں۔محمد ﷺ کی تعلیمات ہی اندھیروں میں چراغ ِراہ ہیں۔وہی اس دنیا میں کامیابی کا زینہ ہیں اور وہی اگلے جہان میں باعث ِ نجات ہوں گے۔اس کارِ جہاں میں انہی کا دامن تھام کر کامیابی ملے گی اور لامکان میں بھی انہی کی سفارش سے عصیاں کے بوجھ سے چھٹکارا ملے گا۔
محمد مصطفی ﷺ کی محبت ایمان کی شرط اول ہے اور اس میں خامی ہو تو ایمان ہی نامکمل رہتا ہےاور جس شخص کا ایمان نامکمل ہو تو اس کے لئے مکاں اور لامکاں میں سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کچھ نہیں ہے۔محبت کا تقاضا ہے کہ انہیں دل میں بسایا جائے،زبان انہی کی ثنا کرے اور عمل سے ثابت ہو کہ ان کی محبت ہی متاعِ جاں ہے۔
محمد مصطفی ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائے ملتی ہے اور بلاشبہ ان کی ذاتِ اقدس ہی پوری انسانیت کے لئے خضر ِ راہ ہے۔انہی کی سنتیں ہمارے لئے کامیابی کا زینہ ہیں اور انہی کے نقشِ قدم کی پیروی اخروی نجات کا ذریعہ بھی ہے۔بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان تب تک نامکمل ہے جب تک محمد ﷺ کی محبت نہیں ہے اور محبت تب تک نہیں ہو سکتی جب تک انسان محبوب کے رنگ میں نہ رنگ جائے۔
سرکارِ دو عالم کی ذاتِ گرامی ہی وجہ تخلیق کائنات ہے۔آپ محبوبِ پروردگار ہیں جن کو تمام انبیاءمیں افضل چن لیا گیا۔
ایک لفظ ہم ہمیشہ سنتے آئے ہیں "اسوہ¿ حسنہ"۔حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی درحقیقت بہترین نمونہ ہے جس میں ہمیں پیدائش سے لے کر موت تک درپیش معاملات میں کامل اور مکمل ترین راہ نمائی ملتی ہے۔
سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ اسلام جیسے بہترین دین کو جس طرح آپ نے احسن طریقے سے عملی طور پر دکھایا اس کی مثال روئے زمین پر کہیں نہیں ملتی۔ایک سپہ سالار ،ایک معلم،ایک والد،ایک دوست،ایک ہمسائے،ایک مسافر،ایک فاتح غرض ہر روپ میں وہ کردار کی اعلیٰ ترین بلندیوں پر فائز نظر آتے ہیں۔دینی معاملات ہوں جیسے نماز،روزہ،حج وغیرہ سب میں انہی کی سنت بہترین اسوہ ہے۔معاشرتی معاملات ہوں جیسے مساوات،عدل و انصاف ،رواداری،صبر و تحمل ،ایفائے عہد وغیرہ سب میں کامل نمونہ آپ کی ذاتِ گرامی ہے۔جنگ وجدل کا ذکر آئے تو محمد مصطفی ﷺبہترین منتظم نظر آتے ہیں اور لین دین ،کاروبار کی بات ہو تو احمد مجتبیٰ ﷺکردار کے اعلیٰ درجے پر دکھائی دیتے ہیں۔
ہمیں آپ کی سنتوں کو زندہ رکھنا ہے۔ ان کو زندہ رکھنے کا واحد طریقہ آپ کی ذات سے بے پناہ محبت ہے۔جب ان کی محبت ہماری رگ رگ میں بس جائے گی تو ہماری زندگی خود بخود ان کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھل جائے گی۔دل جب یکسو ان کی محبت میں ڈوب جائے گا تو وہ ہر جا ہوں گے۔جس نے محمد کی غلامی کر لی وہ زندگی کے ہر غم سے آزاد ہو گیا۔شاعر نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے کہ
محمد کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
آج اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں ہر فردِ واحد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آپ کے اسوہ¿ حسنہ کو مشعلِ راہ بنائے اور زندگی کے تمام معاملات میں سنتوں کو معمول بنا لے۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو آپ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر تمام امت مسلمہ کو سونپی تھی کہ
"جو موجود ہیں وہ میری بات ان تک پہنچائیں جو موجود نہیں ہیں۔"
گویا امر باالمعروف و نہی عن المنکر کے جس فریضے کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس پر آپ کے اس قول نے مہر ثبت کر دی ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔لہذا یہ ہمارا کام ہے کہ سنت نبوی کے مطابق خود کو ڈھال لیں اور بھٹکے ہوو¿ں کی اصلاح کریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنت نبوی ﷺکی پیروی آخر کی کیسے جائے،کہاں سے آغاز کیا جائے؟کیسے خود کو ان کی تعلیمات میں ڈھالا جائے تو ہمیں کچھ نہیں کرنا بس نبی آخر الزماں ﷺ سے عشق کرنا ہے اور بے پناہ کرنا ہے۔جب ان کی محبت رگ و پے میں سما جائے گی تو تقلید خود بخود ہوتی جائے گی۔
فتنہ پروری کے اس دور ہمیں سنتِ نبوی کا دامن تھام کے رکھنا ہو گا۔اپنے گھروں میں چھوٹی چھوٹی سنتوں کی پیروی کرنی ہو گی اور ہمارے بچے یہ تب کریں گے جب ہم کریں گے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ سنتوں کو روزمرّہ زندگی کا معمول بنایا جائے۔بچوں کے دلوں میں پیارے نبی سے محبت کے جذبات پیدا کیے جائیں۔آئیے عہد کریں کہ ہم سنت نبوی کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں گے اور اپنی آنے والی نسلوں کے دلوں میں حبِّ محمدی کی شمع روشن کریں گے۔
آئیے کچھ سنتوں کا جائزہ لیتے ہیں جو روزمرّہ کا معمول بنانی چاہییں۔مثلاً
سلام میں پہل کریں اور اس کے لئے افسر یا ملازم ،چھوٹے بڑے کی درجہ بندی نہ کریں۔جب بھی کسی سے ملیں مسکرا کر ملیں۔والدین سے اونچی آواز میں گفتگو نہ کریں۔کسی کی دل آزاری نہ کریں۔غلطی ہو جائے تو فوراً معافی طلب کریں اور بچوں کو بھی عادت ڈالیں کہ وہ دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔گھر کے افراد ہوں یا رشتہ دار اور خاص کر ہمسائے ہمیشہ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔کھانے کے آداب کا خیال رکھیں۔رزق ضائع نہ کریں۔پانی ہمیشہ بیٹھ کر پیئیں۔رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کریں۔جو تعلق توڑے اس کی طرف خود جھک جائیں۔سادہ زندگی بسر کریں۔بچوں کو سکھائیں کہ وہ دکھاوے اور نمائش سے دور رہیں۔جھوٹ بولنے سے گریز کریں۔سچ کی عادت اپنائیں۔فضول خرچی سے پر ہیز کریں اور بخل سے بچیں۔بچوں کو چھوٹی چھوٹی دعائیں یاد کروائیں اور انھیں عادی کریں کہ وہ صبح شام کے معمولات میں ان دعاو¿ں کو پڑھیں۔ رات کو جلد سونے اور صبح جلدی اٹھنے جیسی نایاب عادات کو از سرِ نو زندہ کریں۔
بات بہت طویل ہو رہی ہے۔میرے نبی کی کہی ہر بات اور کیے گئے ہر عمل میں ہمارے لئے ہدایت کا سامان موجود ہے۔سیرت طیبہﷺ کا ہر پہلو مینارہ¿ نور ہے اور ان کو مکمل طور پر ضبط ِتحریرمیں لانا ممکن نہیں ہے۔
راحت اندوری کا ایک نعتیہ قطعہ جو غیر معمولی حبِ رسول کا غماز ہے :
زم زم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
اے نبی، آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا
اللہ رب العزت ہمیں محمد مصطفی خاتم النبیین ﷺ سے محبت کرنے اور پھر اس محبت کے تقاضوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین