حضرت سید فریدالدین شیرازیؒ

جی آر اعوان
 حضرت داتا گنج بخش نے اپنی تصنیف کشف المجوب میں تحریر فرمایا ہے۔ اللہ والے اگرچہ لوگوں سے ملتے ہیں مگر ان کے دل اللہ پاک سے لگے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر حال میں اللہ کی طرف ہی جاتے ہیں، انہیں جس قدر بھی مخلوق سے ملنا پڑے وہ اسے بھی اللہ کا حکم سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ ملاقاتیں اللہ سے دور نہیں کر سکتیں۔
اللہ والوں کے نزدیک دنیا کبھی شفاف آئینہ نہیں ہوتی، اور اس کے حالات کبھی پسندیدگی قابل نہیں ہوتے۔ جس سرائے کی بنیاد ہی مصیبت، پر ہو وہ مشکلات سے خالی نہیں ہو سکتی۔ حضرت علی کرم اللہ سے کسی نے پوچھا”پاکیزہ چیز کیا ہے“، آپ نے فرمایا اللہ کا غنی کیا ہوا دل، جو دل اللہ کی ذات کی عنایات سے غنی ہو، دنیا کی کمی اسے فقر نہیں کر سکتی۔
داتا حضور فرماتے ہیں اہل تصوف دنیا و آخرت اور تقدیر کے حق میں حضرت علی کرم اللہ کی پیروی کرتے ہیں، آپ کے لطائف کلام بے شمار ہیں۔ حضرت فرید الدین شیرازی تصوف کی مسند کے انہیں ورثاءمیں سے ہیں جن کے اوصاف یگانہ سطور بالا میں بیان کئے گئے ہیں آپ ایران کے شہر شیراز کے ایک سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ سعدی شیرازی کے حوالے سے مشہور شہر شیراز کے ایک سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ سعدی شیرازی کے حوالے سے مشہور شہر شیراز کے باسی حضرت فرید الدین شیرازی کے آباءمیں بہت سے اہل منصب و جاہ بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ آپ کے عالم طفولیت میں پردہ فرماگئیں تو آپ کے والد گرامی سید خضر الدین نے شیراز سے ہجرت کا فیصلہ کیا اور شہر مشہدسے ہوتے ہوئے طویل سیاحت و مسافرت کے بعد ہندوستان کے قریہ پنجاب میں پہنچے۔
سید فرید الدین شیرازی نے تعلیم و تربیت کے علاوہ سلوک و طریقت کی ساری منازل اپنے والد گرامی کی انگلی تھام کر سرکیں، قبلہ کے والد گرامی جب لاہور پہنچے اس وقت لاہور پر سکھوں کی عملداری تھی، افراتفری کے اس پرآشوب دور میں اسلام کے دشمن بے پناہ تھے، مغلیہ دور زوال پذیر تھا، سکھوں کی دہشت اور خوف عروج ر تھا۔ والد گرامی کے وصال کے بعد سید فرید الدین شیرازی نے لاہور کے علاقے مزنگ میں اپنے والد گرامی کی قیام گاہ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سید فرید الدین شیرازی نے داتا حضور گنج بخش فیض عالم کی درگاہ پر چلہ کشی کی، بابا فرید گنج شکر کے آستانے پر کافی عرصہ قیام کیا۔ ایک مدت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر کی درگاہ پر بسر کی۔ اس کے بعد خواجہ محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءکے مزار کے انوار سے اپنے قلب و سینہ کو منور کیا، اہل اللہ کی تجلیوں سے سرفراز ہونے کے علاوہ آپ نے عربی، فارسی، اردو، ہندی اور سنسکرت کی زبانوں پر دسترس حاصل کی علوم دینہ اور ظاہریہ پر کمال حاصل واپس اپنی مسند گاہ مزنگ لاہور پر تشریف لائے۔ لاہور میں ایک درسگاہ قائم کی۔ رنجیت سنگھ کے کم سن جانشیں راجہ دلیب سنگھ کی والدہ مہارانی جنداں نے آپ کی درسگاہ کی مالی کفالت کرنے کی خواہش ظاہر کی، آپ نے شکریہ کے ساتھ انکار کیا اور تو مہارانی درپے آزار ہوگئی۔ لیکن جن کی آستینوں میں یدبیضا ہو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ مہارانی جنداں کے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی سکھوں کی شاہی تمام ہوئی اور حکومت انگریزوں کے ہاتھ آگئی۔
1949ءمیں پنجاب میں تسخیر کے بعد انگریزوں نے بعد فریدالدین شیرازی عدالتی امور کی انجام دہی کی پیش کش کی تاہم مسند انصاف بلامعاوضہ سنبھالنے کے لئے تیار ہوئے۔ انگریزوں کے عہد میں بھی آپ کو اس وقت سخت امتحان گزرنا پڑا جب انگریزوں نے کھلم کھلا عیسائیت کی تبلیغ شروع کی اور پادریوں اور گرجا گھروں کے جال بچھا دیئے۔
انگریز نے مستقل تبلیغی مشنری ادارہ قائم کیا۔ جس کا مستقل ہیڈ کوارٹر کوئینز روڈ، شاہراہ فاطمہ جناح مزنگ میں بنایا۔ یہ وہ وقت تھا مسنداسلام کے وارث حضرت فرید الدین شیرازی نے عیسائی پادریوں کو مناظرے کی دعوت دی مزنگ کاعلاقہ کنک منڈی مقام مناظرہ مقرر ہوا۔ پادریوں کو شکست ہوئی اور بابا فریدالدین شیراز کے علم وعرفان کی دھاک چاردانگ بیٹھ گئی آپ نے اپنے فکر و عمل سے باور کرایا کہ بعثت محمد رسول اللہ کے بعد کسی دوسرے مذہب کی ضرورت ہے نہ اسے رائج کرنے دیا جا سکتا ہے۔ بیشتر پادریوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔
سید فرید الدین شیرازی، سر سید احمد خان کے ہم نوا تھے، آپ نے تحریک علی گڑھ کی پیروی کرتے ہوئے لاہور میں جدید تعلیم کی اسلامی درسگاہیں قائم کرنے کابیڑا اٹھایا۔ پہلا سکول مزنگ کنک منڈی میں قائم کیا۔ سکول کے اخراجات طلبہ اپنے گھر سے ایک مٹھی آٹا لاتے اسے جمع کرکے پورے کرتے۔ بعدازاں سید فرید الدین شیرازی نے ایک اور سکول ڈھلی محلہ موچی دروازہ، مسجد وزیر خاں میں قائم کیا۔
 سید فرید الدین شیراز ایک اور کارنامہ بھی قابل ذکر ہے سکھوں نے لاہور کی بادشاہی مسجد پر قبضہ کرکے اصطبل بنا رکھا تھا، آپ نے انگریز دور میں بادشاہی مسجد واگزار کرائی اور محراب و منبر کی رونقیں پھر سے بحال کیں۔ حضرت فریدالدین شیراز مشق سخن بھی رکھتے تھے آپ نے دیوان حافظ کا پنجابی ترجمہ کیا۔ نواح کوٹ کے پیر فضل شاہ آپ سے اصلاح لیتے تھے اور برملا اقرار کرتے تھے۔”میرا مرشد کون ہے، سید فریدالدین شیرازی“۔
بابا جی فرید الدین شیرازی کے معاصرین میں تحقیقات چشتی کے کنھیا لال شامل ہیں۔ جب نور محمد سادھو نے حضرت داتا گنج بخش کا 1278ھ میں مزار تعمیر کرایا تو بابا فرید الدین شیرازی نے ایک تاریخی قطعہ فرمایا جس کا ترجمہ یہ تھا نور محمد نے ہمارے مرحوم مکرم بزرگ کے مقبرے کی تعمیر نو کی تو فرید الدین شیرازی نے اس کے قطعے کی تاریخ میں کہا کہ یہ لوگوں کو عطا کرنے والے ہمارے مخدوم کا مقبرہ ہے۔ مسجد وزیر خاں میں بھی بابا فرید الدین شیرازی کا تاریخی قطعہ کتبے کی شکل میں آج بھی موجود ہے آپ نے شاہ محمد غوث کے رسالہ غوثیہ کی جامع شرح بھی فرمائی۔
حضرت فرید الدین شیرازی17 ربیع الاول1284ھ بمطابق1867ءکو واصل حق ہوئے آپ کا مزار پاک چاہ منڈی مولا بخش روڈمزنگ میں مرجع خاص و عام ہے۔ آپ کا161 واں عرس مبارک17,16 ربیع الاول کو مزار اقدس پر عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا،جس میں دینی و سماجی خدمت اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 

ای پیپر دی نیشن