یک سطری صحافت اور عباس اطہر کی سنسنی خیز سرخیاں

بدھ کے دن اوپر تلے درپیش آئے تین معاملات کی وجہ سے میں گھبرا گیا۔ جن تجربات سے ایک ہی دن گزرنے کا اتفاق ہوا انھوں نے احساس دلایا کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے صحافت اب ’یک سطری‘ ہوگئی ہے۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ محض چند الفاظ پر مبنی ’سرخی‘ یا ہیڈ لائن ہی قاری یا ناظر ’پوری خبر‘ کی صورت لیتے ہیں۔ جس زمانے میں میری عمرکے لوگوں نے صحافت شروع کی تھی ان دنوں ’سرخی‘ کا بنیادی مقصد قارئین کو کوئی ایک ’خبر‘ تفصیل سے پڑھنے کو مائل کرنا تھا۔ وہ زمانہ یاد کرتے ہوئے مرحوم عباس اطہر صاحب یاد آگئے ۔
عباس اطہر صاحب مجھے انگریزی صحافت سے دھکادے کر اردو کالم نگاری کی جانب لائے تھے۔ پیار سے ہم انھیں ’شاہ جی‘ پکارتے تھے۔ مرتے دم تک میں ان سے بحث کرتا رہا کہ بنیادی طورپر وہ ایک شاعر ہیں۔رزق کمانے کی مجبوری نے انھیں صحافی ہونے کو مجبور کیا۔میری بات وہ زیادہ بحث کیے بغیر تسلیم کرتے تھے۔
شاہ صاحب کو صحافت میں اصل شہرت خبروں کی مختصر ترین ’سرخی‘ لگانے کی بدولت نصیب ہوئی۔اس ضمن میں صرف ایک مثال ہی کافی ہوگی۔ 1970ءمیں ہمارے ہاں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی بار عام انتخابات ہوئے تھے۔ ان دنوں کے مغربی پاکستان کہلاتے آج کے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پیپلز پارٹی نے وہ انتخابات جیت کر ملکی سیاست کے مبصرین کو حیران کردیا۔ پیپلز پارٹی کے انتخاب سے قبل ہوئے جلسوں کے دوران ایک نعرہ لگایا جا تا تھا جو ایک مختصر نظم کی صورت تھا۔ اس نظم نما نعرے کے مصرعے اٹھانے والے کو ’ٹھاہ‘ کہتے ہوئے جواب دیا جاتا۔اس نعرے کی مقبولیت سے متاثر ہوکر ایک فلمی گیت بھی بنایا گیا جو ’آسینے نال لگ جا ٹھا کرکے‘ کی فرمائش کرتا تھا۔ بہرحال 1970ءکے انتخابی نتائج آگئے تو شاہ صاحب نے اپنے اخبار میں صرف یک لفظی سرخی لگائی اور وہ تھی ’ٹھاہ‘۔یہ لفظ صفحہ¿ اوّل پر قلم نہیں بلکہ برش سے لکھے لفظ کی طرح نمایاں نظر آیا۔ 1970ءکی انتخابی فضا اور اس کے نتائج کا ’ٹھاہ‘ کے محض ایک لفظ نے خلاصہ کردیا۔
شاہ صاحب ہی کے ہاتھوں مگر ایک اور سرخی بھی نکلی جو تاحیات انھیں اپنا دفاع کرنے کو مجبور کرتی رہی۔ اس سرخی کا پس منظر بھی بیان کرنا لازمی ہے۔ہوا یہ تھا کہ 1970ءکے انتخابات منعقد کروانے سے قبل ان دنوں کے فوجی آمر جنرل یحییٰ نے لیگل فریم ورک آرڈر جسے ایل ایف او کہا جاتا تھا کے ذ ریعے یہ اعلان کردیا کہ 1970ءکے انتخاب کے ذریعے جو قومی اسمبلی معروض وجود میں آئے گی وہ اگر 120دنوں کے اندر پاکستان کا آئین بنانے میں ناکام رہی تو اسے توڑ دیا جائے گا۔پاکستان کے کئی دوراندیش سیاستدان جن میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی بھی شامل تھے مسلسل فریاد کرتے رہے کہ مذکورہ شرط کو واپس لیا جائے وگرنہ ملکی سا لمیت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ فوجی آمر اور ان کے ہم نوا خود کو مگر عقل کل تصور کرتے ہیں۔وہ اس شرط پر ڈٹے رہے۔ انتخابات اس شرط کے ہوتے ہوئے ہوگئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے ان دنوں کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں دو نشستوں کے علاوہ تمام سیٹیں بھاری اکثریت سے جیت لیں۔ ان دنوں کے پاکستان کے محض ایک حصے میں جو آبادی کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ تھا عوامی لیگ کی جیت نے اسے اکثریتی جماعت بھی بنادیا تھا۔ اس نے مطالبہ شروع کردیا کہ فی الفور نو منتخب شدہ اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے۔
شیخ مجیب نے چھ نکات کی بنیاد پر 1970ءکا انتخاب جیتا تھا۔یہ نکات مشرقی پاکستان کے لیے ایسی خودمختاری کا تقاضا کرتے تھے جن پر حقیقی معنوں میں اگر عمل درآمد ہوجاتاتو پاکستان مغربی اور مشرقی پاکستان پر مبنی ’فیڈریشن‘ نہیں بلکہ ’کنفیڈریشن‘ کی صورت اختیار کرسکتا تھا۔ اس امکان سے ہماری ریاست کے دائمی ادارے گھبرا گئے۔ انھیں یہ خدشہ بھی لاحق ہوگیا کہ اگر شیخ مجیب کے مطالبہ پر قومی اسمبلی بلائی گئی تو مغربی پاکستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرست جو ولی خان کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی میں جمع تھے عوامی لیگ کے ساتھ مل کر اپنے لیے بھی آئینی ’خودمختاری‘ حاصل کرلیں گے۔
مذکورہ امکان کو روکنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے مطالبہ شروع کردیا کہ نو منتخب اسمبلی کا اجلاس عجلت میں بلانے سے گریز کیا جائے۔بہتر یہی ہوگا کہ اس کا اجلاس بلانے سے قبل شیخ مجیب اور بھٹو کے مابین مذاکرات ہوں۔ پاکستان کے دونوں صوبوں میں اکثریتی جماعتوں کی صورت ابھری جماعتوں میں جب نئے آئین کی تشکیل کے بارے میں چند اصولوں پر اتفاق رائے ہوجائے تو یہ دونوں باہم مل کر دیگر منتخب شدہ جماعتوں کو بھی نئے آئین کے بنیادی خدوخال پررضا مند کرسکتی ہےں۔ آج سوچیں تو یہ مطالبہ کافی معقول سنائی دیتا ہے۔ ان دنوں کے ہیجانی ماحول میں لیکن بھٹو مخالفین کی اکثریت یہ اصرار کرتی رہی کہ پیپلز پارٹی کے بانی ’جمہوری اصولوں کے برخلاف‘ شیخ مجیب کی اکثریت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔اس ضمن میں موصوف کو ’پنجابی‘ افسر شاہی کی پشت پناہی بھی میسر ہے اور جنرل یحییٰ خان بھی اپنے چند جرنیلوں کے ذریعے ان سے رابطے میں ہے۔
بھٹو صاحب کے مطالبے کو پذیرائی میسر نہ ہوئی تو انھوں نے لاہور کے مینارِ پاکستان تلے جلسہ عام سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس جلسے سے قبل پیپلز پا رٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے چند اراکین قومی اسمبلی (جن میں احمد رضا قصوری بھی شامل تھے جن کے والد کا قتل بعدازاں بھٹو صاحب کی پھانسی کا سبب ہوا )’ذاتی حیثیت‘ میں اخباروں کو بتانا شروع ہوگئے کہ وہ قومی اسمبلی کا فوری اجلاس بلانے کے حامی ہیں اور اس کو طلب کرلیا گیا تو وہ اس میں شریک ہونے کو ترجیح دیں گے۔
یہ بات چلی تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس شک میں مبتلا کردیا کہ چند حکومتی ایجنسیاں ان کی جماعت میں نقب لگانے کی کوشش کررہی ہیں۔اپنے ذہن میں آئے خدشات کی پیش بندی لیے انھوں نے مینارِ پاکستان کے جلسے میں اعلان کردیا کہ پیپلز پارٹی کے جیالے اپنی جماعت سے منتخب ہوئے اس رکن قومی اسمبلی کی ’ٹانگیں توڑدیں گے‘ جو یحییٰ خان کی جانب سے شیخ مجیب کے مطالبے پر ڈھاکہ میں بلائے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوگا۔
شاہ صاحب مذکورہ جلسے میں موجود تھے۔جلسہ ختم ہوا تو وہ ڈان اخبار کے لاہور میں نمائندے نثار عثمانی مرحوم کے ساتھ جو ہم سب کے مہربان اور شفیق بزرگ تھے پیدل چل کر ریلوے اسٹیشن تک آئے۔ان دونوں کے مابین بھٹو صاحب کی تقریر کے مضمرات پر غور ہوا۔عثمانی صاحب کو خدشہ تھا کہ اگر پیپلز پارٹی یحییٰ خان کے شیخ مجیب کے مطالبے پر طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہوئی تو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر علیحدہ ملک بن جائے گا۔عثمانی صاحب کے بتائے خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاہ جی نے لاہور میں جلسے کی بابت ’اِدھر ہم اُدھرتم‘ والی سرخی لگائی تھی۔
یہ سرخی مگر بھٹو مخالفین پیپلز پارٹی کے بانی کے خلاف ’چارج شیٹ‘ کی صورت استعمال کرتے رہے۔ یہ سرخی لگاتے ہوئے عباس اطہر صاحب کے ذہن میں ’چارج شیٹ‘ والی بات البتہ تھی ہی نہیں۔ان کے ذہن پر فقط نثار عثمانی صاحب کے بیان کردہ خدشات چھائے ہوئے تھے۔ بہرحال سرخی لگ گئی اور شاہ صاحب مرتے دم تک اس کے بارے میں وضاحتیں دیتے رہے۔
ربّ کا لاکھ بار شکر کہ بدھ کے دن جو سرخیاں مجھے پریشان کررہی تھیں ان کے مضمرات ’اِدھر ہم اُدھر تم‘ جیسے سنگین نہیں ہوسکتے۔ ان کی بدولت مگر ہمارے عوام کی اکثریت دن بھر کنفیوژ وپریشان رہی ہے۔میں بھی ’تاریخ‘ بیان کرتے ہوئے بھٹک گیا ہوں اور ان ’سرخیوں‘ کا تفصیلی تذکرہ نہیں کرپایا۔ کالم اب ختم بھی کرنا ہے۔ تفصیلات میں جانے کی مہلت باقی نہیں رہی۔فقط نوجوان ساتھیوں سے ہاتھ باندھ کر التجا کروں گا کہ اپنی دی ’خبر‘ کی ’سرخی‘ یا ’انٹرو‘اور ٹی وی کے لیے ’ٹکر‘ تیار کرتے ہوئے ’ٹھاہ‘ جیسی خوش گوار حیرت تخلیق کریں ’اِدھر ہم اُدھر تم‘ والی سنسنی خیزی نہیں۔

ای پیپر دی نیشن