میثاق جڑانوالہ

”مسلم مسیحی کمیونٹی“ کے درمیان اتحاد۔ یگانگت قائم رکھنے کیلئے ”میثاق جڑانوالہ“ کے 6نکاتی ایجنڈہ پر دستخط ہو گئے۔ تحریری ضمانت پر مندرج چند خصوصی الفاظ۔تمام شہری ریاست پاکستان کے دستورکو تسلیم کریں۔ پاکستان کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں اور ہر حال میں ریاست کے ساتھ وفا داری نبھائیں گے۔ اپنے عقائد دوسروں پر مسلط نہیں کرنے دینگے۔ یہ معاملہ کسی ایک شہر یا علاقہ کا نہیں۔ پوری دنیا میں اسوقت یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ توہیں مذہب پر قانون بنایا جائے۔ افسوس۔ دکھ ہے کہ اکثریتی واقعات کا تعلق مسلمانوں سے ج±ڑا ہوا ہے اور عالمی برادری پے در پے ر±ونما ہونے والے شرمناک افعال سے یکسر غافل اور جان بوجھ کر آنکھیں موڑے ہوئے ہے د±ور جانے کی بجائے صرف قریبی سرحد ج±ڑے ہمسایہ کو دیکھ لیں تو مساجد۔ گرجا گھروں کی بے ح±رمتی میں بھی پوری دنیا کو ”انڈیا“ پیچھے چھوڑ چکا ہے انسانوں کی ح±رمت۔حقوق سے تو وہ پہلے ہی منکر ہو چکا تھا ا±س کی تفصیل ہر کسی کو معلوم ہے۔ مسلمان زیادہ استحصال کا شکارہیں۔ حجاب پر پابندی۔ برقع پر پابندی۔ ملازمتوں والی جگہوں پر مسلمان خواتین۔ ورکرز سے غیر مناسب برتاﺅ۔ امتیازی سلوک۔ فقرے بازی۔ حملے۔ اب بھی ر±ک نہیں پائے۔
 پاکستان میں اقلیت برادری سب ممالک سے زیادہ پ±رسکون ماحول۔ فضا میں رہ رہی ہے۔ برابر کے مواقع حقوق میسر ہیں اِکا د±کا واقعات بھی ہمیشہ کی طرح ”دشمن قوتوں“ کے پلان کردہ ہوتے اور ہمیشہ کی طرح ناکام ہو جاتے ہیں۔ ناکامی شاطر قوتوں کا مقدر ہے اب اِس مقدر کو ا±سے قبول کر کے خاموش بیٹھ جانا چاہیے۔ بیٹھ جانا تو ا±ن قوتوں کو بھی چاہیے جو پاکستان کی حامی ہیں۔ یہاں بیٹھ جانا سے م±راد ایک میز ہے۔ ”میثاق“ لفظ ہی اتنا خوبصورت۔ میٹھا ہے کہ پڑھ۔ س±ن کر ہی دل خوش۔ آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ ”میثاق مدینہ“ سے بڑھ کر کوئی معاہدہ مقدس نہیں۔ ہماری روح۔زندگیوں میں ”مدینہ پاک“ خون کی طرح دوڑتا ہے اسی لیے ہمیں چاہیے کہ بطور مسلم اپنے وطن سے محبت کو اپنے کاروبار۔ معمولات کا حصہ بنائیں اِس صورت کہ نہ ”غدار“ کو برداشت کریں نہ غداری کی راہ پر چلیں۔ اپنے ”دین حنیف“ کی حرمت پر ایک ہو جائیں۔ مظاہروں۔ ٹائر جلانے کی بجائے اپنے اعمال کو ”سنت محمد “ سے آراستہ کرلیں۔
”میثاق جڑانوالہ“ کی یہ سطور بطور خاص دل کو بھائیں کہ ہر حال میں پاکستان کے ساتھ دفاداری نبھائیں گے بطور شہری۔ پاکستانی ہمارا فرض یہی بنتا ہے کہ ہم تلخ و ترش میں بھی اپنے وطن کی عزت کو اولیت دیں۔ ملک کے ساتھ وفاداری کی صورت بگاڑ دی گئی ہے تاجر۔ صنعت کار ٹیکس دینے سے گریزاں۔ دوکاندار ایمانداری سے مال بیچنے میں چور ”سیاستدان“ صرف حکومت ملنے پر ریاست سے دفادار۔ ملازمین عیاشیاں۔ سہولتیں پاکستان سے پر دوسری شہریت کا حصول ترجیح اول۔ نہ کوئی ”جماعت نہ کوئی فرد“ کوئی بھی قوم کی آخری امید نہیں۔ پوری قوم آخری ا±مید ہے یہ ا±مید تبھی پوری ہوگی جب سب ساتھ چلیں گے۔ نہ طاقت نہ جبر نہ دھونس کچھ بھی نہیں کر سکتا جب تک تمام جماعتیں۔ عوام اکٹھا نہیں ہونگے۔ صرف ”اکٹھ“ ہی اندھیرے د±ور کر سکتا ہے۔” تنازعہ کشمیر“ مطالبات سے نہیں متحدہ طاقت دکھانے سے حل ہوگا۔ بے حرمتی کے سانحات بھی ”ا±مت مسلمہ “ کی شکل میں ر±کیں گے۔ ”ا±مت“ کی جو صورت تھی ا±س کو بحال کرنا ہوگا یہ ممکن نہیں کہ ”دنیا“ امن کی خواہش کرے اور غالب حصہ تکلیف میں ہو۔ ”توہین“ افراد کی ہے یا مذہب کی عالمی ”پاور بروکرز“ کو تمام اشکال کے انسداد کے لیے مسلمانوں کے مطالبے پر توجہ دینی چاہیے۔ اقوام متحدہ توہین مذاہب پر قانون بنائے۔ یورپی ممالک اپنی حدود میں افسوسناک واقعات کوروکیں۔ 
تشدد اور طاقت کا استعمال۔ چاہے کوئی مذہبی تنظیم ہے یاسماجی گروہ۔ بھلے سے سیاسی جماعتیں ہی کیوں نہ ہوں کِسی صورت تشدد۔ جلاﺅ‘ گھیرا ﺅ ‘ توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔غیر قانونی معاشی سرگرمیوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور متعلقہ محکموں کے ایک ساتھ شریک عمل ہونے کے مفید نتائج سامنے آرہے ہیں۔ نتائج وہی مفید ہوتے ہیں جن میں تسلسل رہے۔ دیرپا فوائد کا حصول۔ مسلسل روانی اصل مقصد ہونا چاہیے۔ قوانین بہت اچھے ہیں بس عملدرآمد کروالیں۔ بجلی۔گیس چوری پر قابو پانے کے علاوہ یہ زیادہ ضروری ہے کہ ملک بھر میں دونوں لازمی اشیاءکی برابر اور سستے داموں فراہمی کے لیے ماضی میں کیے جانے والے معاہدوں پر عمل درآمد اب کر ہی ڈالیں۔ جب تمام شہریوں کو بجلی۔ گیس مسلسل اور سستی ملے گی تو پھر چوری کے امکانات بھی معتدبہ حد تک کم ہوتے جائیں گے۔ مزید براں ”معاہدوں“ کی ایک ح±رمت ہوتی ہے اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے والوں کے متعلق ہمارا ”دین حنیف“ بہت واضح ہے معاشی نقصانات کے مزید دور سے بچنے کیلئے ارزاں اور سود مند معاہدوں کو ترجیح اول دی جائے۔ کوئی شک نہیں کہ ایک مسلمان کی زندگی کا سکون ”سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ میں پنہاں ہے پاکستان تبھی ”ٹیک آف“ کرے گا جب ہم اپنے اطوار۔ معمولات۔ چہروں۔ کاروبار۔ گفت و شنید کو ”سیرت محمد “ سے سجالیں گے۔ سچ بولنا اور کسی سے نہ ڈرنا۔ ہر ایک میں اب اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ حق سچ کے ساتھ ڈٹ جائے۔ انسانی ڈور بہت کمزور ہو چکی ہے۔ 
جس دن ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی وہ دن ظلم۔ جبر۔ دھونس کے خاتمہ کا دن ہوگا۔ رسہ گیروں۔ قبضہ گروپس۔ قاتل۔منشیات گروپس۔ بے حیائی پھیلانے والے تمام کو ”ریاست“ اپنی انتہائی قوت کے ساتھ عبرت آمیز گرفت کے ساتھ انجام کو پہنچائے۔ اب وقت یہ آچکا ہے کہ ”75سالہ“ سیاسی گراوٹ۔ کرپشن نے قوم کو مایوس کر دیا ہے۔ اکثریت کی خواہش ہے کہ اب سیاست کی بجائے ”عوام پاکستان“ کے تحفظ۔ سلامتی کی بھرپور عملی مہم کو تقویت دی جائے۔ مافیاز کے خلاف جاری سرگرمیوں کو برابر قوت دی جائے۔” عوام اور ملک“ بے حیائی۔ ل±وٹ مار سے محفوظ ہوگا تو تبھی ہم ”ٹیک آف کریں گے۔ بہت بھلا معلوم ہوا کہ معزز ”اعلیٰ عدلیہ“ نے ”صاحب“ کا لفظ بولنے سے روک دیا۔ در حقیقت ”صاحب“ لفظ بذات خود ب±را نہیں دوسروں کو عزت دینے واسطے بولا جاتا ہے۔ 75سالوں کا جبر۔ فراڈ۔ کرپشن نے سبھی کچھ ملیامیٹ کر دیا تو عزت والے پیمانے بھی فیل۔ ناکام ہوگئے۔

ای پیپر دی نیشن