پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں غیر سنجیدہ افراد جس نامناسب انداز میں اپنے ووٹرز کو غلط راستے پر چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حکمت عملی سے ناصرف ملک کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ پی ٹی آئی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گا۔ سیاسی تحاریک چلتی ہیں، سیاسی قیادت احتجاج بھی کرتی ہے، سیاسی کارکن سڑکوں پر بھی نکلتے ہیں لیکن اس وقت ملک جس مشکل دور سے گذر رہا ہے اور برسوں کی جمہوری ایکسر سائز کے بعد بھی ہم جمہوری طریقہ کار، روایات اور اصولوں سے کوسوں دور ہیں۔ ہم احتجاج کے نام پر سڑکیں روکنے، ریاستی وسائل کو تباہ کرنے، جلاو گھیراؤ کرنے اور ہر طرح کے جانی و مالی نقصان کو بھی احتجاج کے نام پر جائز قرار دینے سے گریز نہیں کرتے اور اب تو یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے مدد مانگ لی ہے۔ لوگ اس معاملے میں اختلاف کریں گے کہ میں نے مدد کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی کو اپنے احتجاج میں شرکت کے لیے دعوت دیتے ہیں تو اس کا پہلا اور صاف مطلب اس کی طاقت، حیثیت اور وسائل کا رعب و دبدبہ اپنے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر بیرسٹر سیف بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو ابتدائی طور پر اپنے احتجاج میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ بھارت سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ شرمناک بیان پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے ہو نہیں سکتا۔ اب بیرسٹر گوہر یا بیرسٹر اس بارے جو چاہیں وضاحت یا تردید دیتے رہیں بات وہ ہے جو کہہ چکے، پکار وہی ہے جو لوگ سن چکے، کیا اقتدار کی ہوس میں انسان اتنا بھی بے حس ہو سکتا ہے کہ اپنے دشمن ملک کے وزیر خارجہ کو مسکرا مسکرا کر احتجاج میں شرکت کی دعوت دے رہا ہے۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں اور پھر وضاحت دیتے ہوئے کہتے ہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے شرکاء کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ہمارے احتجاج کو دیکھیں تو محظوظ ہوں گے۔ کوئی عقل، شعور، فہم و فراست، سمجھ بوجھ کا اگر کوئی دور دور کا تعلق بھی ہو تو وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ غیر ملکی مہمان جو کہ کسی بھی ملک کی حکومت میں اہم عہدے پر ہیں وہ یہاں احتجاج دیکھنے آ رہے ہیں، وہ ہمارا سیاسی تماشا دیکھنے آئے ہیں یا اس تنظیم میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ بہت ہی تکلیف دہ اور قابل مذمت سوچ ہے۔ پی ٹی آئی کی اس قیادت نے اگر یہ لائن اختیار کی ہے یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ اندرونی معاملات میں بھارت سے مدد مانگنے میں بھی عار نہیں سمجھیں گے تو اس سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ واضح کرتی ہے کہ پی ٹی آئی نادان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اگر صوبے کا وزیر اعلیٰ ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے گا تو اس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کا ترجمان بھارتی وزیر خارجہ کو اپنے احتجاج میں شرکت کی دعوت دیتا ہے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پورے ملک سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں سے کسی نے اس سوچ کی مذمت نہیں کی۔ یہ کس اخلاقی حیثیت کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جائیں گے۔ یعنی بیرسٹر سیف کے اس بیان کو پالیسی سمجھا جائے اگر یہ لوگ ایسی ہی پالیسی کے تحت آگے بڑھتے ہیں تو جان لیں کہ یہ آزادی کے لیے لاکھوں شہدا کے خون کے ساتھ ناانصافی ہے، یہ توہین ہے ان شہدا کی جنہوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے جانیں قربان کیں، کیا پی ٹی آئی نہیں جانتی کہ ملک کے اندر بدامنی میں بھارت کا کردار کیا ہے۔ یہ بیان لاکھوں کشمیری شہدا کے خون سے غداری ہے، یہ سخت الفاظ ضرور ہیں لیکن بھارت کے معاملے میں اس سے کم سخت الفاظ ملتے نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے سے آج تک جس شدت کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے کیا پی ٹی آئی کی نادان قیادت اس سے ناواقف ہے۔ کچھ تو خیال کرتے، ہمارے فوجی جوان روزانہ کی بنیاد پر ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے قیمتی جانیں قربان کر رہے ہیں ان دہشتگردوں کو بھارت کا تعاون حاصل ہے کیا یہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر یا خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔ یہ بیان اور اس کی تردید دونوں کی مذمت ہونی چاہیے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہتے ہیں کہ ہم جے شنکر کو دعوت دیں گے ہمارے احتجاج میں شرکت کریں اور ہمارے لوگوں سے خطاب کریں، دیکھیں پاکستان کی جمہوریت کتنی مضبوط جمہوریت ہے جہاں پر ہر کسی کو احتجاج کا حق ہے۔ ڈی چوک پر ہم احتجاج ریکارڈ کرائیں گے اور بانی پی ٹی آئی کی کال پر احتجاج ختم ہوگا۔ وزیر داخلہ غلط بات کر رہے ہیں، ہم اسلحہ کیوں لائیں گے؟ پر امن احتجاج ہمارے مفاد میں ہے، اگر کچھ ہوگا تو یہ لوگ خود ذمہ دار ہوں گے، ہم ملک کی بہتری کیلئے آ رہے ہیں۔ یہ جتنے ممالک آ رہے ہیں ان کے وفود ہمارے احتجاج دیکھ کر خوش ہوں گے، پاکستان کی جمہوری اقدار کی مضبوطی کی تعریف کریں گے، یہاں پر احتجاج کرنے کا حق ہے آئین کے مطابق بڑی سیاسی پارٹی کو احتجاج کی اجازت ہے۔
یہ وہ بیان ہے جو رپورٹ ہوا ہے اب اس کی کوئی تردید قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ ایسے بیانات کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کیا ایسے لوگ ملک کے کسی بھی صوبے میں حکومت میں ہوتے ہوئے ملکی مفاد کو اولین ترجیح دے سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو بھارت سے مدد مانگیں ان سے خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ ویسے اگر انہیں جے شنکر کو اپنی احتجاجی صلاحیتیں دکھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو ویزے لے کر بھارت جائیں اور منی پور میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کریں پھر دیکھیں جے شنکر ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ منی پور میں حالات اس قدر تشویشناک ہو چکے ہیں کہ اب جتھوں نے سرکاری املاک اور پولیس سٹیشنوں پر حملے شروع کردیئے ہیں، گزشتہ کئی روز سے منی پور کے قبائل کے مابین جھڑپوں کے دوران ہزاروں لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ دو علیحدگی پسند گروپوں کے مابین تصادم کے دوران اسلحہ لوٹ لیا گیا اور پولیس پر تشدد بھی کیا گیا، جھڑپوں کے دوران تین افراد ہلاک اور 20 سے زائدزخمی ہو گئے۔ کشیدہ حالات کے باعث علاقے کی سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی اور مزید فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے۔ منی پور میں خون ریز نسلی فسادات اور پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپوں کے بعد کشیدہ حالات کے پیش نظر انٹرنیٹ سروس کو بھی بند کردیا گیا۔ گوکہ ان مظاہروں سے مودی سرکار سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے بیرسٹر سیف کے مظاہرین اس وقت نریندرا مودی کے کام آ سکتے ہیں۔
چند اور بھی خبریں بھارت کے مظالم کی ہیں یہ صرف حوالے کے لیے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کی نادان قیادت کو بوقت ضرورت یاد دلایا جا سکے کہ جب بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھائے رہی تھیں تو یہاں کچھ خود ساختہ دانشور جے شنکر کو احتجاج میں شرکت کی دعوت دے رہے تھے۔
مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے تیئیس مزید ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کر دیا۔ مودی حکومت اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کشمیری ملازمین کو بے بنیاد الزامات کے تحت معطل کر رہی ہے۔ بھارت اپنی انسان دشمن پالیسیوں کے ذریعے اقوام متحدہ کے متنازعہ خطہ قرار دئیے گئے مسلم آبادی کے علاقے کو زیر کرنے پر تلا ہوا ہے،بی جے پی حکومت کشمیریوں کو معاشی طور پر گلا گھونٹنے کے لیے اپنی آبادکاری کی استعماری پالیسی کے تحت کشمیری سرکاری ملازمین کو برطرف کر رہی ہے۔ تمام تر جارحانہ اقدامات کے باوجود بھارت کشمیریوں کی پرامن جدوجہد کو دبانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ مودی سرکار نے بھارت کو مذہبی جنونیت کا مرکز بنا دیا ہے حال ہی میں ہندو سینا نے دعویٰ کیا ہے کہ اجمیر درگاہ مہادیو مندر کی جگہ تعمیر ہوئی ہے۔بھارت میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی ہندوتنظیمیں مساجد کو مسمار اور مسلم مخالف جزبات کو بڑھکانے کے مقصد کے لیے ہی قائم کی گئی ہیں۔ یہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں صرف ایودھیا کی بابری مسجد ہی نہیں بنارس کی گی ان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ بھی ہندوؤں کے حوالے کرنیکا مطالبہ عرصہ دراز سے کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے بابری مسجد کو رام مندرکی جنم بھومی قرار دے کر گرایا گیا اور اس پر رام مندر تعمیر کر دیا گیا جسکا افتتاح کچھ عرصہ قبل وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے کیا گیا ۔ حال ہی میں نئی دہلی میں واقع 600 سال پرانی مسجد اکھونجی کا انہدام بھارت کی فسطائیت اور مذہبی انتہا پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے
اسی سال کے اوائل میں ہریانہ اوراتراکھنڈ میں مساجد کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جو مودی سرکار کی مذہبی جنونیت کا نتیجہ ہیں، مساجد کو مسمار اور مندر کی زمین قرار دینے کے واقعات کی کڑی میں ایک اور واقع کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی دعوے کی بنیاد پر ہندو انتہا پسند ہندتوا گروپ نے اجمیر درگاہ کو منہدم کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ "بھگوان سنکٹ موچن مہادیو ویرجمان" کو اجمیر درگاہ کی زمین کا حقیقی مالک قرار دیا جائے۔ یہ حوالے پی ٹی آئی قیادت کے لیے ہیں ویسے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یاد دلانا بہرحال ضروری ہے۔ یہ تازہ ترین واقعات ہیں جگہ کی کمی کے باعث ساری تاریخ یہاں لکھنا ممکن نہیں اگر اس سوچ کے حمایتی کسی بھی شخص کو ضرورت ہو تو وہ رابطہ کر سکتا ہے اسے مطلوبہ ریکارڈ فراہم کر دیا جائے گا۔
آخر میں داغ دہلوی کا کلام
باغ میں گْل کھل جاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
اْنگلیاں سرو اْٹھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
جانِ مشتاق مری آنکھوں میں آ جاتی ہے
یار جب مثردہ سناتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
جیتے جی کون عیادت کے اْٹھائے احسان
اس لیے جان سے جاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
دیر قاصد کو لگی اے دلِ مشتاقِ جمال
دیکھیے ہم کو بلاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
سینکڑوں دو قدم آگے ہیں جلو میں فتنے
ساتھ اک حشر کو لاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
ساتھ دشمن کے وہ کیا آئے کہ قیامت آئی
خاک میں ہم کو ملاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
دل و جان پاس سے جاتے ہیں کہ وہ جاتے ہیں
صبر و ہوش و خرد آتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
نہیں منظور جو بچنا تو دم چارہ گری
ہم مسیحا کو ڈراتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
کون آتا ہے برے وقت کسی پاس اے داغ
لوگ دیوانہ بناتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
پی ٹی آئی کی جے شنکر کو دعوت، بے معنی وضاحت یا تردید، کیا یہ قومی خدمت ہے؟؟؟
Oct 06, 2024