سانحات و ترجیحات

Oct 06, 2024

چوہدری علی عاشق سندھو 

دنیا بھر میں سانحات رونما ہوتے ہیں. زندہ قومیں ان سانحات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں. پاکستانی قوم دنیا کی وہ واحد قوم ہے. جو سانحات کے بھنور میں پھنسے ہوئے کے باوجود کچھ سیکھنے کو تیار نہیں. ایک سانحہ سے زخم کھانے کے بعد اسی طرح کے دوسرے سانحے کے رونما ہونے کا انتظار کرتی ہے. سانحہ مشرقی پاکستان جس کے نتیجہ میں پاکستان دولخت ہو گیا. اس پر کچھ مفاد پرست عناصر نے خوشی کے شادیانے بجائے. اور اس سانحہ کو درست قرار دینے کے لیے مختلف دلائل پیش کیے. ان کے بقول مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان زمینی فاصلہ بہت زیادہ تھا. اس لیے اس کا وجود قائم رکھنا ناممکن تھا. مغربی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کی سوچ ایک نہیں تھی. وہ ہمارے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے. ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ زیادہ تھا. یہ وہ باتیں ہیں. جو ہم آج تک سنتے آ رہے ہیں. آج بھی ملک پاکستان اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے. بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے. وہاں کے لوگ بھی ہمارے ساتھ رہنا نہیں چاہتے. ان کی سوچ بھی ہم سے نہیں ملتی. ہم ان کو سمجھانے کی بجائے وہی غلطی یہاں بھی کر رہے ہیں. طاقت کا استعمال. ہر مسئلے کا حل طاقت نہیں ہوتی. کچھ مسائل افہام و تفہیم کے متلاشی ہوتے ہیں. بلوچستان کے لوگ بھی پاکستانی ہیں. وہ بھی ہمارے بہن بھائی ہیں. ان میں احساس محرومی ہے. کیونکہ وہاں سرداری نظام چل رہا ہے. غلامی سے نجات حاصل کرکے دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے. مگر بلوچستان کی عوام آج بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے. بگٹی، مری، مزاری، مینگل قبائل آج بھی سرداری نظام کو اپنانے ہوئے ہیں. ان قبائل کے سرداروں کے بچے دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں. اور یہ سردار اپنے علاقوں میں سرکاری سکول تک نہیں بننے دیتے. تاکہ غریب کا بچہ پڑھ لکھ نہ جائے. یہ لوگ عوام کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے. ان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں. اسی احساس محرومی نے وہاں کے لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے. لڑائی ہمیشہ غربت کی ہوتی ہے. خوشحالی میں کوئی جھگڑا نہیں کرتا. حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام عوام سے مذاکرات کرنے چاہیے. ان سے پوچھے کہ ان کے مسائل کیا ہیں. سرداروں کی بات سننا چھوڑے. یہ سردار ہی ہیں. جو عوام کے منہ سے دو وقت کا نوالہ چھین رہے ہیں. افواج پاکستان کو بھی سرداروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے. عام لوگوں کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی. اور انہیں سرداروں کے ظلم و ستم سے نجات دلوانی ہوگی. بلوچستان کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دینا ہوگی. تاکہ وہ معاشی طور پر خود کفیل ہو سکے. بلوچستان کا مسئلہ انتظامی نہیں. بلکہ بھائی چارگی کا متلاشی ہے. مگر ہر حکومت اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے سرداروں کی خوشآمد کرتی ہے. اور بلوچستان کی عوام کو مسلسل نظر انداز کرتی ہے. جس کی وجہ سے وہاں کی عوام میں احساس محرومی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے. اگر اس کا فوری حل تلاش نہ کیا گیا. تو ملک پاکستان ایک اور سانحہ سے دوچار ہونے والا ہے. کاش ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کیا ہوتا. تو آج بلوچستان کے حالات ایسے نہ ہوتے. حکومت اور افواج کو بلوچستان سے سرداری نظام کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی. وہاں کی عوام کو خود اعتمادی دینا ہوگی. نوجوانوں کو سرکاری اداروں میں بطور ملازم رکھنا ہوگا. اور بلوچستان میں کارخانے لگانے ہوگے. تاکہ وہاں کی عوام کو باعزت روزگار مل سکے. اپنی ہی عوام کو بندوق سے ڈرانے کی بجائے. ان کو گلے لگا کر ان کے مسائل کو حل کرنا چاہیے. بالآخر بلوچستان کی عوام چاہتی کیا ہے؟ وہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے. حکومت کو کھلے دل سے ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا چاہیے. اس میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوگی. بلکہ ملک پاکستان کی جیت ہوگی. ملک ہے تو سب کی سیاست بھی ہے ورنہ کچھ نہیں. ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے. ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے. ملکی مفاد کی خاطر مل جل کر فیصلہ سازی کرنی چاہیے. تمام سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کی صورتحال پر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے. اور ایک ایسا مشترکہ جامع پلان تشکیل دینا ہوگا. جو بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کر سکے. بلوچستان کا مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں جتنا ہم نے بنا دیا ہے. بلوچی بھی ہمارے بھائی ہیں. اور ہم ان کو گلے لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں . ملک پاکستان کا ہر صوبہ یکساں اہمیت کا حامل ہے. اس کے شہری بھی یکساں حقوق کے حامل ہیں. پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان سب بھائی ہیں  ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں.ہم بطور پاکستانی قوم اپنے بلوچی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں. پاکستان قائم رہنے کے لیے معرض وجود میں آیا تھا. اور انشاء￿  اللہ قائم و دائم رہے گا. 

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی 
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے.

مزیدخبریں