''بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں ''

یہ درست ہے کہ دنیا میں عیسائت کے بعد سب سے زیادہ تعداد2  ارب مسلمانوں کی ہے مگر ان میں یکجہتی نام کی نہیں جس سے مسلم ممالک ایک ایک کر کے کمزور ہو رہے ہں۔ سامراج کی ہمیشہ سے یہ پلاننگ رہی کہ مسلمانوں کو اکھٹے نہ ہونے دیا جائے۔ عراق ایران کا طویل عرصے سے ایک دوسرے سے لڑنا کیا تھا؟۔ پھر جب عراق کمزور ہوا تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور عراقی لیڈر صدام حسین کو عبرت کا نشان بنایا۔ پہلے اپنی مرضی سے ملک کے غداروں سے کام لیتے ہیں پھر انہیں مار دیتے  ہیں۔ ایسا اب یہاں بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا۔جس کو یہ اقتدار میں لاتے ہیں اس کو بتایا جاتا ہے کہ تمہاری ذمہ داریاں کیا ہونگی اس بدقسمت کے حصے میں جو رول ادا کرنیکو انہوں نیدیا ہے وہ پہلے والوں سے مختلف ہے۔ پہلے والوں کو ملک کی ترقی کرنے میں یہ ان کی مدد کیا کرتے تھے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب اس خطے میں انہیں ہماری ضرورت نہیں رہی ہمارا ازلی دشمن اب ان کا لاڈلا ہو چکا ہے ، انہیں یہ کام سونپ چکے ہیں انکا کام ملک کو سنوارنا نہیں بگاڑنا ہے۔ چلتے گھوڑے کو چابگ مارنا ہے۔ ترقی کو روکنا ہے۔اس ملک کو جتنا نقصان  عدالتوں نے پہنچایا ہے شائد ہی کسی دوسرے ادارے نے دیا ہو۔جھنوں نے آئین توڑا ججوں نے انہیں  تحفظ دیا۔ اب جو کھلواڑ کھیلا جارہا ہے اس کے پیچھے بھی وہی ہیں جو نہیں چاہتے کہ ملک میں امن ہو اور پاکستان ترقی کرے،لہذا عدالتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ میں آرٹیکل A  63 ریویو کا کیس زیر سماعت رہا، پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس سنا اور متفقہ فیصلہ صاد کیا۔ وہ باتیں جو ججز کو آپس میں بیٹھ کر کرنی ہوتی ہیں اس پر وہ اب خط لکھتے ہیں۔جب کہ ان ججز کا کام کیس سن کر فیصلے لگنا ہوتا ہے اور یہ فیصلے بھی قانون اور آئین سے ہٹ کر  لکھتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ ریویو کیس میں خود بیٹھے نہیں۔جب کہ یہ فیصلہ انہیں کا لکھا ہوا تھا بنچ بنتا ہے مگر کام  کرتے نہیں۔اگر کام نہیں کرنا تو گھر چلے جائیں۔ جج بن کر سیاست تو نہ کریں۔ جو کچھ اپ کے سینیر ججز کرچکے ہیں وہی کیا کافی نہیں۔اس ملک کو کمزور کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔اب تمام توپوں کارخ عداکت کی جانب ہے۔ دنیا میں انصاف دینے والی عدالتوں میں ہمارا 128واں  نمبر ہے۔ اگر اپنی مرغی خراب نہ ہو دوسروں کے گھروں میں انڈہ کیوں دے؟اس نظام کی خرابی کی اصل وجہ ججز کی سلیکشن ہے۔ اکثر سلیکشن میرٹ پر کی نہیں جاتی۔ ہائی کورٹ ججز کی سلیکشن کا معیار شفاف اور بلندی پر نہیں۔ جب میرٹ کے بجائے ججز چمبر سے جج لیں گے اور اپنے رشتے داروں سے بنائیں گے تو یہی رزلٹ آئیں گے۔ سپریم کورٹ میں ججز کی گروپ بندی ہر دور میں  رہی ہے جس سے انصاف قانون کے مطابق نہیں سیاسی بنیادوں پر یہ کرتے آئیں ہیں۔اگر انہیں عدالتی کام نہیں کرنا تو گھر چلے جائیں عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع تو نہ کریں۔ یہ جسٹس منیب اختر ہیں کون ؟ کہا جاتا ہے یہ پریکٹسنگ لائر نہیں تھے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے چیمبر فیلو اور  خالد انور کے داماد  ہیں۔بدقسمتی سے ہر دوسرااس بنا پر جج بنا ہے جن کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا انہیں سال دو سال کے بعد نکال باہر کرتے ہیں کہا جاتا ہے اسلام اباد کیچیف جسٹس ثاقب نثار کے بھانجے ہیں۔ جب تک ججز کا چناؤ میرٹ پر نہیں ہوگا رشتہ داری اور چیمبر فیلو کی بنا پر اگر جج بنے گے تو ایسے ہی گل کھلتے نظر آئیں گے۔پھر انہیں کے نقش قدم پر ان کے شاگرد چلتے نظر آئیں گے۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ آجکل ایک بیکری کی ویڈیو وائرل ہے !! افسوس یہ  ایک طبقہ مسلسل تعریف کے پل قائم کررہا ہے ۔ مجھے خود بھی چیف جسٹس سے اختلاف ہے۔ اختلاف کا حق ہر ایک کو ہے مگر ہر ایک کی حد مقرر ہے۔دو اکتوبر کو لارجر بنچ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کام کر رہا تھا ایک سفید بالوں والا ریٹائرڈ سی ڈی اے ملازم جو اب ریٹائرمنٹ ہو کر ڈسٹرکٹ کورٹ کا وکیل ہے۔اسے لیڈر بنے کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہے۔ اب  یہ پی ٹی آئی کا ورکر نہیں لیڈر بنے کے چکر میں کالے چشمے لگائے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔اسے کون بتائے کہ کالا کوٹ کالے چشمے پہن کر ججز کی توہینِ کرنے سے لیڈر نہیں بنتا۔ دو اکتوبر کو جب  علی ظفر کیس کر رہے تھے تو یہ ان کے ساتھ منہ اٹھائے کھڑا ہو گیا۔ علی ظفر نے کہا مجھے تمہاری ضرورت نہیں تم بیٹھ جاؤ کہا میں نے چیف جسٹس سے کچھ کہنا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا آپ کون ؟کہا میرا تعلق پی ٹی آئی سے اور بنچ میں موجود ججز کے ساتھ بد تمیزی  کرنی شروع کردی۔وکالت کا خیال نہ رکھا۔علی ظفر نے کہا میں اسے نہیں جانتا۔ یہ کون ہے۔چیف جسٹس نے اسکے سفید بالوں اور کالے کوٹ کو دیکھ کر سمجھے کہ یہ سپریم کورٹ کا وکیل ہو گا۔۔اسے بیٹھ جانے کو کہا کچھ دیر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک بار پھر ججز سے مخاطب ہو کر کہا ہم اس بنچ کو نہیں مانتے۔ اگر فیصلہ خلاف دیا تو میرے ساتھ پانچ سو وکلا بایر کھڑے ہیں۔ یعنی مزید بکواس کرنی شروع کردی۔جس پر پولیس کو کہا گیا ک اسے پکڑ کر کمرہ عدالت سے باہر لے جاؤ پھر اسے پکڑ کر عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔پتہ چلا یہ سی ڈی اے کا ریٹائرڈ ملازم ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ جیالا بن کر ورکر نہیں لیڈر کے جگہ بنا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ ماضی میں  ایم کیو ایم  پیپلزپارٹی پرویز مشرف کا جیالا بنتا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے اس نے سی ڈی اے میں بھی کافی گل کھلائے ہیں مگر بیوی پی ٹی وی پروڈیسر ہونے کی  وجہ سے یہ میڈیا پر سب  اچھا دکھاتی بتاتی رہی۔اج یہ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کا لیڈر نہیں پورس کا ہاتھی ثابت ہوا جس کی وجہ سے ساتھیوں سمیت خود بھی اب ریمانڈ ہے پولیس کا مہمان ہے۔ پاکستان بار کونسل نے بھی اس کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے۔ پی ٹی آئی کی وکلا قیادت بھی اس کے خلاف سخت ایکشن لے رہی ہے۔ اس جیسے کچھ ورکرز اخلاقیات کا جنازہ  نکال رہے ہیں۔ پارٹی کو بدنام کر تے ہیں۔ یاد رہے جس بہودہ بندے کو آپ سپورٹ کرتے ہیں داد دیتے ہیں وہی اپ کا کردار شو کرتا ہے۔ یہی کردار اور اپ کی تربیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یاد رہے وہ شخص نقصان میں رہتا ہے جو اپنی آخرت کو برباد کر کے اپنی دنیا آباد کرتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ اس ملکی اداروں کو  سازش کے تحت کمزور اور بدنام کیا جارہا ہے. ماضی قریب میں چینی صدر کی پاکستان میں آمد ہو ، ملائشین  وزیراعظم کا دورہ پاکستان یا سپریم کورٹ کی عدالت میں انکی کیسوں  کے فیصلوں پر بحث ہو یہ جلوس دھرنے گالم گلوچ کریں گے۔ یہ دشمن کا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ساغر صدیقی یاد آگئے  

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں 
کچھ باغباں ہیں برق و شر سے ملے ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن