آئین اتحاد و یکجہتی کاضامن

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی آئین کسی بھی ملک کے لیے مقدس دستاویز ہو تی ہے ،اور یہ عوام کے اتحاد اور یکجہتی کی ضمانت ہوتی ہے اور آئین ہی ملکوں کو توانا رکھتے ہیں اور آئین میں ترمیم کا معاملہ نہایت ہی حساس ہو ا کرتا ہے اور اس کے لیے بہت ہی زیادہ سوچ بچار اور احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔کبھی بھی خفیہ طریقے سے آئینی ترمیم ممکن نہیں ہے۔آئینی ترمیم تو دن دہاڑے، بابانگ دہل عوام کی رائے لے کر پھر کی جاتی ہے اور قانون سازی بھی اسی طرح سے ہونی چاہیے۔بد قسمتی سے ہماری پا رلیمانی تاریخ میں اس طرح کی روایات شامل ہو گئی ہیں جو کہ جمہوری نہیں ہیں ،پارلیمانی جمہوری طرز تو رہا ہی نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کو بھی اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوششیں کی جاتی ہے۔ہمارے پارلیمانی نظام میں صدارتی خدو خال نظر آتے ہیں اور یہ کسی خاص سوچ بچار کے بعد اس طرح نہیں ہوا ہے ،بلکہ جس کی جو مرضی ہو ئی ہے اس نے وہ کیا ہے اور گند ڈال دیا گیا ہے۔آجکل آئین میں ترمیم کے حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پر کچھ نہ کچھ خبر آتی ہے اور کچھ نیا سننے کو ملتا ہے ،آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہونے ضروری ہیں اوراگر نمبرز پورے نہ ہو ں توترمیم ہو نہیں سکتی ہے بلکہ اگر نمبرز پورے بھی ہوں تو پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کو مل کر متحدہ پارلیمان کو ہی آئینی ترمیم کرنی چاہیے جس طرح سے 18ویں ترمیم کی گئی تھی۔اس ترمیم کے دوران واقعی پارلیمان نے ثابت کیا تھا مل کر کام کرسکتے ہیں اور پیچیدہ آئین سازی بھی اتحاد کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔بہر حال وہ ایک اچھا دور تھا اب معاملات اور حالات و واقعات بدل چکے ہیں ملک میں شدید ترین سیاسی پولرا ئزیشن ہے اور ایسی صورتحال میں آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،وہ عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ بظاہر عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق ہے ، لیکن در حقیت عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اور عدلیہ کو کمزور کرنا کسی صورت میں مناسب بھی نہیں ہے۔کسی بھی جمہوری نظام میں 3بنیادی فیکٹرز ہو تے ہیں جو کہ اگر یہ عوامل اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہو ئے کام کریں تو ہی جمہوریت کامیاب ہو سکتی ہے۔بصورت دیگر ناکامی مقدر بن جایا کرتی ہے۔معاملات کو فہم و فراست کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہوا کرتی ہے اس کے بغیر کام نہیں چلتا ہے اور ون مین شو کی طرز پر معاملات چلانے کی کوشش کی جائے تو معاملات خراب ہی ہو تے ہیں۔پاکستا ن کی جمہوریت ،ابھی بلوغت سے بہت دور ہے ،جمہوریت کا حسن ہو تا ہے کہ جمہوریت میں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہوتی ہے اور اپنے کام سے کام رکھ کے عدل کا نظام سنبھالتی ہے اور آئین کی تشریح بھی عدلیہ کا کام ہو تا ہے ،پارلیمان کثرت رائے سے قانون سازی کرتی ہے اور عدالت اس قانون سازی پر عمل کرواتی ہے اور اس طرح نظام چلتا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ قانون سازی اور آئین سازی میں عوام کی رائے بھی شامل ہو نی چاہیے اس کے بغیر گزارا نہیں چل سکتا ہے اور آئینی ترمیم سب کی رائے سے دن کی روشنی میں ہو ا کرتی ہے اور نہ کہ چھپانے سے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔آئینی ترامیم روز روشن کی طرح عیاں ہو تی ہے۔اس ترامیم کے فوائد اور نقصانات عوامی جائزے کے لیے میسر ہوتے ہیں ،اور عوامی سطح پر سیر حاصل بحث کے بعد ہی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اب اگر امریکہ کے آئین کو دیکھا جائے تو اس آئین کو تشکیل پائے ہو ئے 250سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں امریکی آئین میں 28ترامیم کی گئی ہیں ،جبکہ دوسری جانب اگر ہمارے آئین کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے ،ہمارے آئین میں 75سال میں  اتنی ہی ترامیم کر دی گئیں ہیں ،یہ امر نظام میں فرق اور سیاسی استحکام اور ملک چلانے والوں کی ترجیحات کے حوالے سے بھی پتہ دیتا ہے۔اور میں تو یہ بھی کہوں گا کہ یہ ساری ترامیم عدلیہ پر پابندی لگانے کے لیے کی گئیں ہیں۔جتنی عدلیہ کی طاقت ہوں گی اتنی ہی عوام بھی طاقت ور ہو گی۔اہل اقتدار کو اپنا احتساب خود کرنے کی ضرورت ہے ،اور متنازع انداز میں قائم ہو نے والی اسمبلی اور متنازع انداز میں قائم ہو نے والی حکومت معاملات ٹھیک نہیں کرسکتی ہے۔جب تک کہ عوام کے صیح نمائندہ گان اسمبلی میں نہیں آئیں گے تب تک ملک کے معاملات بھی حل نہیں ہو ں گے۔میرا یہ سوال ہے کہ لاہور شہر میں یا پھر کراچی شہر میں اور کوئی لوگ نہیں ہیں جو کہ عوام کے نمائندے بن سکیں ،ان شہروں سے تو ایسی لیڈر شپ نکلنی چاہیے ،جو کہ قوم کی آواز بنے اور قوم کو ان مسائل کی دلدل سے نکال سکے۔اور ان کے معاملات شفاف ہوں اور ان معاملات میں فارم 47اور فارم 45کا کو ئی وجود نہ ہو۔اور الیکشن کمیشن آئین کے مطابق درست انداز میں اپنا کام کرے اور صرف الیکشن تک ہی محدود ہو۔الیکشن کمیشن کا کام سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ بنانا نہ ہو ،اس کو ترتیب دینا نہ ہو ،لیکن اگر ہو بھی تو اس انداز میں نہ ہو کہ اس معاملہ کو سیاست کے لیے استعمال کیا جائے ،اور جس طرح کنفیوڑ انداز میں ابھی معاملات کو چلا یا گیا ہے اس طرح سے معاملات کو نہ چلایا جائے۔یہ مناسب نہیں ہے۔موجودہ الیکشن کمیشن کی کا رکردگی کسی بھی صورت میں تسلی بخش نہیں رہی ہے اور لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن جانب دار ہو چکا ہے اور اپنی شفافیت کھو بیٹھا ہے ان کو بھی صرف اپنے کام تک محدود ہو نا ہو گا۔
 

ای پیپر دی نیشن