1947ء سے پہلے یہود و ہنود کے قبضہء قدرت میں کوئی ملک نہیں تھا۔ دنیا کے نقشے پر ہندوستان نام کا ملک تو موجود تھا مگر اِس پر انگریز قابض تھے اور انگریزوں سے پہلے اِس پر منگولوں کی حکومت تھی۔ اگرچہ ہندوؤں کی سیاسی جماعت کانگرس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ نامی ایک تحریک بھی چلائی تھی جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ تاریخ ہند کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ مزید ایک دہائی آرام سے ہندوستان پر حکمرانی قائم رکھ سکتا تھا مگر جنگ جیتنے کے باوجود سمٹ سمٹا کر چند جزیروں پر مشتمل ملک کے لئے کوسوں دور مفتوحہ علاقوں کا کنٹرول سنبھالے رکھنا ناممکن ہو گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم اِن ہندو مت کے پیروکاروں کے لئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ انگریز سرکار نے جنگ کے دوران اپنے اعلان کردہ وعدے سے پہلے ہی 1947ء میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان کر دیا اور باعزت طریقے سے اپنے گھر کی راہ لی۔ یوں ہندو پہلی دفعہ ایک وسیع و عریض ملک کے مالک بن گئے۔
14 مئی 1948ء کو جس ملک نے قابلِ ذکر عسکری جدوجہد کئے یا تحریک چلائے بنا ہی جنم لیا، وہ اسرائیل تھا۔ اِس ملک کو کسی اخلاقی و قانونی جواز کے بغیر forcefully وجود میں لایا گیا۔ مائٹ اِز رائٹ کے تحت اخلاقیات کو کون پوچھتا ہے اور قانون کو کون مانتا ہے؟ اور وہ بھی جنگ کے زمانے میں!! قرآن مجید میں یہودیوں کی نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہونے کے باوجود وہ نہ ان کی تعلیمات پر عمل کرتے تھے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنا ضروری خیال کرتے تھے۔ یہ خود کو اللہ کی منظورِ نظر قوم کہتے ہیں اور احساسِ برتری اور خود سری کے زعم کا شکار ہیں۔
تاہم یہودیوں میں بے پناہ خوبیاں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ یہ کاروباری سوجھ بوجھ، تعلیم، تحقیق اور جستجو میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اپنی نسل کے ساتھ جان و دل سے مخلص ہیں۔ دنیا کے دولت مند ترین لوگوں کی فہرست میں یہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود سائنس، معاشیات، سیاسیات اور دیگر علوم پر اِن کو کلی دسترس حاصل ہے۔ دنیا کی آبادی کا 0.2 فیصد ہونے کے باوجود 22 فیصد نوبل انعام اپنے نام کر چکے ہیں جو انہوں نے فزکس، کیمسٹری، اکنامکس، لٹریچر، امن اور میڈیس کے شعبوں میں حاصل کئے ہیں۔ میڈیا، بینکنگ اور اہم صنعتوں پر دسترس رکھنے کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں بھی نمایاں مقام حاصل کر رکھا ہے۔ اِس وقت اگر دنیا کی گردن امریکی شکنجے میں کسی ہوئی ہے تو یہودیوں نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے طفیل امریکہ کو قابو کر رکھا ہے۔ رپبلکن پارٹی ہو یا ڈیموکریٹک، دونوں اِن کی ناز برداریوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر ہنوز و یہود انتہائی تنگ دل، کم ظرف، کینہ پرور اور خود غرض واقع ہوئے ہیں۔ یہ وعدہ خلافی میں بھی یہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ دونوں میں مذہبی تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ دوسروں کو چین سے رہتے دیکھنا دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ دونوں کے امریکہ اور برطانیہ سے مثالی تعلقات ہیں۔ مسلم دشمنی بھی اِن دونوں کو گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ دونوں کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ مثال کے طور پر ہندوستان نے درج بالا سوچ کا مظاہرہ آزادی ملنے کے آغاز میں کشمیر اور حیدرآباد کی ریاستوں پر بزورِ قبضہ کرکے کیا۔ بعد میں یہ سلسلہ غیر مسلم ریاستوں تک بھی پھیل گیا۔ ہندوؤں کے ہاتھوں بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کا اور یہودیوں کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کا بے دریغ قتلِ عام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
تھوڑی میں بہت پڑنے کی وجہ سے ہندوستان نے چین کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ کر لئے۔ معاملہ یہاں بھی نہیں رک سکا، اْس نے دوسرے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان، اور مالدیب کو بھی اپنی مخصوص منفی سوچ کا نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے۔ بنگلہ دیش کا تخلیق کار بھی وہی تھا اور حسینہ واجد نے اس کے آگے سرنگوں بھی کیا ہوا تھا۔ بالآخر باشعور بنگالیوں نے ان دونوں سے نجات حاصل کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ بھارت نے سری لنکا کی ملکیت ’کچھاتیوو‘ نامی جزیرے پر اپنا حق جتا دیا ہے حالانکہ 1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان اس کی ملکیت پر ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اسے سری لنکا کی ملکیت مانا جا چکا تھا۔ مالدیب کے بھارت سے کبھی قریبی مراسم ہوا کرتے تھے مگر اب فاصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہاں صدارتی امیدوار، محمد معیزہ نے ’انڈین واپس جاؤ‘ کے نعرے پر انتخاب لڑا اور کامیابی سمیٹی۔ رہ گیا بھوٹان، تو وہ بھی بھارت سے راہیں جدا کرکے چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے جتن کر رہا ہے۔ سارک تنظیم کو بھارتی رویے نے عملاً عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی اس کے نامناسب رویے کی وجہ سے تنظیم کے دوسرے ممبران اس سے نالاں ہیں مگر مودی سرکار امریکہ اور اسرائیل سے گاڑھی چھننے کی وجہ سے ’’سَیاں بَھئے کوتوال اَب ڈَر کاہے کا‘‘ پر عمل کر رہی ہے حالانکہ یہی بھارت ایک طویل عرصے تک اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینی موقف کا علمبردار رہا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ فوائد و ثمرات سمیٹنے والے یہودی تھے۔ جنگ کے دوران یہودی دماغ اتحادیوں کی بھر پور مدد کرکے انہیں شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہو چکے تھے جس کے صلے میں برطانوی سرپرستی میں اقوام متحدہ کے ذریعے ان کو اسرائیل کے نام سے ملک بھی ’الاٹ‘ ہو گیا۔ اْس کی تمام ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، شام اور مصر کے ساتھ جنگیں ہو چکی ہیں۔ عدم ہمسائیگی کے باوجود عراق اور ایران کی تنصیبات اور شخصیات اس کے نشانے پر رہی ہیں۔ ابھی ایران نے بھی جوابی میزائل حملہ کیا تو ہے مگر اس حملے میں اسرائیلی کا کوئی جانی نقصان نہیں ہو سکا ہے۔ یوں تو اسرائیل کا غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر قیامتیں ڈھانے کا سلسلہ شروع دن سے ہی جاری ہے مگر اِس سال ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی ہے۔ 40 ہزار سے زیادہ مرد، خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد زخمی اور لاپتہ ہے۔ کشمیر کی آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھی بھارت کو اسرائیل کی بھر پور معاونت حاصل رہی ہے۔ یہود و ہنود کے گٹھ جوڑ سے امت مسلمہ زخمی زخمی ہے۔ اسرائیل کی اپنی مملکت کو توسیع دینے کی طویل المیعاد پالیسی جاری و ساری ہے اور امت مسلمہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔