بڑی قربانیوں سے حاصل کیاگیا ملک پاکستان تاریخ کے بد ترین معاشی اور سیاسی انتشار کی زد میں ہے ، انتشار پسند عناصر اغیار کے آلہ کار بن کر ملک میں انتشار برپا کئے ہوئے ہیں ، جب کہ عالمی سطح پر امریکہ کی شہہ پر اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی بے دریغ نسل کشی کر رہا ہے ، لیکن مسلمان حکمران مذمتی بیانات کی حد تک اپنی حمایت کو محدود رکھے ہوئے ہیں ، ملکی سطح پر سیاسی اکائیوں کو عالمی معاملات کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں ، دنیا ایک نئے ورلڈآرڈر کی طرف گامزن ہوتی نظر آرہی ہے ، اگر یہ قوتیں اس نئے ورلڈ آرڈر کو نافذ کرانے میں کامیاب ہو گئیں تو خطے میں اسلامی ممالک اپنے وجود کو کھو دیں گے، یہی نہیں ان قوتوں کے ارادے پاکستان کے خلاف اس قدر پختہ ہیں کہ وہ ملک میں انتشار برپا کرنے کے مواقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔
موجودہ ملکی صورتحال میں انتشار پسند عناصر جو کہ اغیار کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ، عدلیہ کو بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں ، سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63- A کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کو پی ٹی آئی کے وکیل طیب مصطفین کاظمی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ باہر پانچ سو وکیل کھڑے ہیں ، میں دیکھتا ہوں پی ٹی آئی کے خلاف یہ بنچ کیسے فیصلہ دیتا ہے ‘‘ پی ٹی آئی کے وکیل کی دھمکی ظاہر کرتی ہے کہ انہیں ہر حال میں اور ہر سطح پرانتشار پھیلانے کی ترغیب دی گئی ہے ، ان عناصر کاڈی چوک پر احتجاج کی منصوبہ بندی کے پس پردہ مقاصد ظاہر ہیں کہ شنگھائی کانفرنس کے انعقاد کو سبوتاژ کیا جائے ، جب کہ چین کے نئے وزیر اعظم کی شرکت کے علاوہ دوسرے رکن ممالک کے سر براہان کی بھر پور شرکت متوقع ہے ۔
دوسری طرف خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کی دھمکی بھی نازک صورتحال کی جانب توجہ طلب ہے کہ ڈی چوک پر احتجاج کے لئے تربیت یافتہ اور مخصوص دستہ قافلوں سے پہلے ڈی چوک بھیج دیا جائے گا ، گنڈا پور کا کہنا ہے کہ گذشتہ احتجاج کے دوران ورکرز اور رہنمائوں کے پاس معیاری ماسک اور حفاظتی آلات نہیں تھے ، لیکن اس بار ڈی چوک پر احتجاج ہر صورت کیا جائے گا ،یعنی شنگھائی کانفرنس کو متنازع بنانے کے تمام انتظامات کئے گئے ہیں ،اور ہر صورت انتشار بر پا کرنا ہے ، یہ سیاست نہیں دہشت گردی ہے ، احتجاج کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ملکی استحکام کو نقصان پہنچایا جائے ،ایسے ارادے ظاہر کرتے ہیں کہ اغیار کے آلہ کار ہر صورت ملک کو انتشار کی صورتحال سے دو چار کر کے ملکی استحکام اور معیشت کو نیست و نابود کرنے کے در پے ہیں ، یہی بات اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایک کیس کی سماعت کے دوران وکیل سے سوال کیا کہ ’’ آزادی اظہار رائے اور آزادی کا یہ مطلب ہے کہ سب کچھ بلاک کردیں ‘‘ انہوں نے وکیل سے استفسار کیا کہ ’’ کیا ہمارا اختیار ہے ہم شاہراہ ِ دستور کے سامنے احتجاج کریں ؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کمرہ عدالت میں 50 لوگ بیٹھے ہیں تو کیا ہم جا کر شاہراہِ دستور کے بیچ کھڑے ہو کر روڈ بند کر دیں ،اور آنے جانے والوں کی آزادی کو نقصان پہنچائیں گے ، اور آزادی اظہار کی آڑ میں گالی دے دیں ۔
سیاسی انتشار نے اداروں کو اپنی لپیٹ میں جکڑ لیا ہے ، اس وقت ملک کی عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان سمجھ سے بالا تر کیفیت ملک کے لئے انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے ،ملک کے تبصرہ کاروں کے مطابق یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی سے ہو رہا ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئینی نقطہ اٹھا دیا ہے ، اور کہا کہ سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ مفروضوں پر مبنی ہے ، سپریم کورٹ تشریح کی آڑ میں آئین کو دوبارہ نہیں لکھ سکتی ۔
عدلیہ کے فیصلوں کے تناظر میںپاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا انتہائی اہم انکشاف فیصلوں میں تضاد اور جانبداری کے عنصر کی نشاندہی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’ عدالتی اصلاحات عدلیہ نے ناکام بنائیں ، جیسے ہی عدلیہ اصلاحات کا ججز کو علم ہوا ، سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ صادر ہونا براہ راست عدالتی اصلاحات میں مداخلت ہے ، بلاول زرداری نے مزید کہا کہ عدالتی اصلاحات کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے کے لئے ہمارے پاس اکثریتی نمبر تھے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے کم کئے گئے ، عدلیہ نے جو کیا اس کی ٹائمنگ پر بات کیوں نہیں کی جارہی ۔
عدلیہ کے متنازع فیصلوں پر بلاول زرداری کے خدشات ظاہر کرتے ہیں کہ منقسم عدلیہ میں آئینی انحراف پیدا کرنے والے عناصر موجود ہیں جو کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے اور معاشی بحران کے ذمہ دار ہیں ، سر دست ملک میں ہر سطح پر انتشار برپا ہو رہا ہے ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے انتشار پسند عناصر کی بیخ کنی کرے جو کہ ہر صورت احتجاج کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، لیکن امن و امان کو بر قرار رکھنے کی ذمہ داری سے نا آشنا یہ لوگ عوام کی آزادی اظہار کو سلب کرنے کے مجرم ہیں ۔ مہذب قوموں کا ایسا غیر مہذب وطیرہ نہیں ہوتا ، احتجاج کو اگر آپ اپنا حق مانتے ہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مہذب رویئے بھی اپنائے جائیں ، انتشار پسند طبقہ یورپ امریکہ جیسے ملکوں کی مثال دے کر ملک میں انار کی پھیلانے کی مذمومکوشش میں قانون کی پاسداری اور ملک کے استحکام کو یکسر نظر انداز کر کے اپنے مذموموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں جن ممالک کی مثال دیتے ہیں ان ممالک کے عوام قانون کے دائرے میں رہ کر مہذب طریقے سے قانونی اجازت حاصل کر کے احتجاج کرتے ہیں ، وہ حکومت کو فلمی ولن بن کر دھمکیاں نہیں دیتے کہ حکومت جو کر لے ہم احتجاج ضرور کریں گے ، چاہے ملک کی نَیًاڈوب جائے ۔