یہ ہفتہ لگتا ہے کہ احتجاجی سیاست کی نذر ہونے جا رہا ہے۔سیاست اپنے منفی مثبت پہلوئوں کے ساتھ ایک عرصہ سے ہمارے معاشر ے کا حصہ ہے اور آئیندہ بھی رہے گی۔ لیکن دکھ کی بات ہے کہ اس میں اخلاقیات اور خصوصا خواتین کے حوالے سے اخلاقی اقدار کو پامال کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے اثرات شہروں سے دیہات تک عام یعنی غیر سیاسی گھرانوں تک پھیل رہے ہیں اور یہ بات کسی حوالے سے بھی پاکستان جیسے اسلام کی نسبت رکھنے والے ملک کے لئے نیک فال نہیں ہے۔اسرار الحق مجاز نے کہا تھا۔
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن۔۔تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔
مگرجب ایسا کیا جاتا ہے توسیاسی میدان میں اپوزیشن اور حکومت سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ایک ہی طرح کے دکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے اسی پس منظر میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں پیسہ تو بنا رہے ہیں مگر کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ اگر سوشل میڈیا ایپس ریگولیٹ نہیں ہو سکتیں تو ان کو بند کر دینا چاہیے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی سوشل میڈیا بے لگام نہیں ہے۔ مجھے ڈھائی تین ماہ کی لڑائی کے بعد بھی ابھی تک ریلیف نہیں ملا۔ ایف آئی اے کے لوگ آکر رونا روتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایپس کو پوچھنا ہماری کپیسٹی نہیں ہے۔ اس سے ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے حالات با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی آزاد ہے، کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے فیک ویڈیو کیخلاف صوبائی وزیر اطلاعات کی درخواست پر ایف آئی اے کو 11 اکتوبر تک تفتیش مکمل کرنے کی مہلت دی ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر فرانزک رپورٹ طلب کی ہے اور، میٹا اور ایکس کی قانونی حیثیت پر دلائل دینے کا حکم دیدیا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے تفتیش مکمل کرنے کے لئے مہلت کی استدعا کی تھی اور کہا تھا کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے آفس پاکستان میں موجود نہیں ہیں، اس وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ لاء افسر تو کچھ پڑھ کر پھونکیں مار رہے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہاں صرف قانون کی بات ہوگی،۔ عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کیا پڑھ کر میرے اوپر پھونک رہے ہیں؟۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسارکیا کہ اس کیس کی کیا پراگرس ہے؟ اس کیس میں ایف آئی اے دروازے تک پہنچ کر ناکام واپس آ گئی ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا، جے آئی ٹی کا لیول بھی بڑھا رہے ہیں، کسی سنئیر افسر کو اس میں شامل کریں گے استدعا ہے کہ دو تین ہفتے دے دیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے، دو تین ہفتوں میں کتنے دن اور کتنے گھنٹے ہوتے ہیں، آپ لکھ کر لائے ہیں کہ آپ کو مہلت چاہئے؟۔ عدالت نے کہا کہ کام کرنے بیٹھیں تو چار روز کا کام ہے تفتیش کے لیے، نہ چاہیں تو چار ماہ بھی کم ہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ کیس میں گرفتار نہ ہونے والے ملزمان کے خلاف اشتہاری ہونے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں، ڈیڑھ دو ماہ سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہوں مگر کیس کا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔سچ یہ ہے کہ عظمی بخاری مسلم لیگ ن کی انتہائی متحرک سیاستدان اور وزیر ہیں۔ان کے بارے میں بلکہ کسی بھی خاتون سیاستدان کے بارے میں فیک وڈیوز یاکردار کشی سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔وزیر اطلاعات تو پھر ایک عدالتی بیک گرائونڈ کی حامل ہیں۔میڈیا سے رابطوں اور زبان و بیان میں مہارت بھی انہیں حاصل ہے۔ اس کا کچھ اظہار انہوں نے پنجاب میں نئے تعینات ہونے والے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز غلام صغیر شاہد کی جانب سے صحافیوں سے ملاقات کے موقع پر بھی کیا۔یہ ایک بھرپور اجتماع تھا جس میں سینئر صحافیوں اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کام ہو رہا ہے اور عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز ہر روز عوام کے مسائل کے حل کے لئے گھنٹوں میٹنگز کرتی ہیں۔وزیر اطلاعات نے میڈیا کے حوالے سے کہا کہ میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ ہم میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر کرنے کا طریقہ کار وضع کر رہے ہیں اور وزیراعلی پنجاب جلد ڈی جی پی آر کا دورہ کریں گی۔ اس موقع پر سیکرٹری انفارمیشن سید رضا ہمدانی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے مسائل حل کرنا ہماری پہلی ترجیح ہے۔ میرے دروازے صحافیوں کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ صحافی کالونی کے مسائل ہوں یا صحافیوں کی گرانٹ کے، انکے حل کو ترجیح دی جائے گی۔ نئے ڈی جی پی آر غلام صغیر شاہد نے بھی صحافیوں کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے سیاسی حوالے سے کہا کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی آپ سب کے سامنے ہے۔ اس لئے پنجاب کے لوگ فتنہ انگیزی کا حصہ نہیں بنتے۔ ایک صوبے کا مولا جٹ ہر روز فیڈریشن پر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ سرکاری وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ صوبوں کے وسائل عوام کی خدمات کے لئے استعمال ہونے چاہئیں۔
صوبائی وزیر کی یہ بات تو درست ہے کہ صوبوں میں محاز آرائی کی بجائے ایک دوسرے کے لئے ایثار کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ مجھے اسی ہفتے طبی حوالے سے سامنے والی ایک مثال سے ان کی بات میں وزن محسوس ہوتا ہے۔ ستمبر کے آخری ہفتے میں پنجاب کے لاہور جنرل ہسپتال میں ملک کے مختلف ہسپتالوں میں علاج معالجے کیلئے چکر کاٹنے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان(خیبر پختونخواہ) سے تعلق رکھنے والی نوجوان مریضہ زکیہ کا انتہائی پیچیدہ آپریشن کامیابی سے مکمل ہوا اور زندگی اور موت کی جنگ میں مبتلا جواں سالہ مریضہ کو ایل جی ایچ کے ماہر سرجنز نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے نئی زندگی لوٹا دی۔پروفیسر آف یورالوجی ڈاکٹرخضر حیات گوندل کی سربراہی میں ڈاکٹر خلیل احمد، ڈاکٹر اظفر علی، ڈاکٹر ہارون اسرار اور ڈاکٹر عمران نیازی پر مشتمل میڈیکل ٹیم نے یہ پیچیدہ آپریشن مکمل کیا جس پر پرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر الفرید ظفر نے پروفیسر خضر حیات اور اْن کی ٹیم کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو شاندار الفاظ میں سراہا اور اْنہیں مبارکباد دی۔ہوا یہ کہ 24سالہ زکیہ نامی مریضہ کے ڈیرہ اسماعیل خان میں دوران آپریشن گردے سے مثانے میں جانے والی نالی کٹ گئی تھی جس سے یورین پیٹ میں جانے سے انفیکشن پھیلنے لگا اور مریضہ کی حالت تشویشناک ہو گئی۔لواحقین نے بتایا کہ زکیہ کو ڈی آئی خان سے میانوالی پھر اسلام آباد میں منتقل کیا گیا مگرپیچیدگیاں بڑھنے سے مایوس ہو کر کے پی کے میں ڈیرہ اسماعیل خان واپس آئے تو کسی نے پنجاب کے لاہو رجنرل ہسپتال لانے کا مشورہ دیا۔ یہاں پروفیسر آف یورالوجی پروفیسر خضر حیات گوندل کی سربراہی میں مریضہ کا تفصیلی طبی معائنہ کر کے کامیاب آپریشن مکمل کیا گیا۔ ایل جی ایچ میں مسیحائی کے اس اعلیٰ کارنامے پرپرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر الفرید ظفر نے میڈیا کو بتایا کہ صحت کا شعبہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی اولین ترجیح ہے جبکہ صوبے بھر کو بیماریوں سے پاک کرنا اْن کا ویڑن اور ہدف ہے۔ پروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ دور دراز کے علاقوں اور دیگر صوبوں سے لوگ یہاں آ کر علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں جو اس ادارے کی اچھی ساکھ و شہرت، اور یہاں کے ڈاکٹروں کی فرض شناسی و انسانیت کے لئے ہمدردی پر مبنی بہترین سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل جی ایچ کے تمام شعبوں میں جدید طبی آلات کی دستیابی سے پیچیدہ سے پیچیدہ آپریشن بھی ممکن ہو گئے ہیں۔ پروفیسر الفرید ظفر نے خیبر پختوا ہ سے آئی مریضہ کی جان بچانے پر ڈاکٹرز کی پیشہ وارانہ مہارت کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی اور توقع ظاہر کی کہ وہ اسی جذبے، محنت اور لگن کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت کا مشن جاری رکھیں گے۔ اس وقت پری قوم کا ایک خواب ہے کہ پاکستان بھر میں حالات اتنے نارمل ہوں کہ تمام صوبوں کے عوام ملک کی طبی تعلیمی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں اور وہ سوچ اور طاقت جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ایک دوسرے کو اخلاقی حوالے سے پریشان کرنے کے لئے استعمال ہو رہی ہے وہ ایک دوسرے کی بہتری کیلئے کام آنے لگے۔اس خواب کی تعبیر کا انحصار ہمارے ہر طرح کے قائدین کے رویے پر ہے۔ اگر ایسا ہو تو یہ جو ان دنوں ملک بھر میں ہو رہا ہے اور دنیا تماشا دیکھ رہی ہے وہ بھی رک جائے۔شہزاد احمد نے بجا کہا تھا
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب۔۔۔یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا۔
سیاسی اخلاقیات۔کے پی کے صوبے کے مریض لاہور میں
Oct 06, 2024