حالات و واقعات یہ بات ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ’’ انشاء جی اٹھو ،اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا ؟‘‘ شہر ہو کہ گاؤں یا پھر یہ رنگ برنگی دنیا، جس گھڑی پیغام کوچ مالک حقیقی کی جانب سے آجائے تو نہ کوئی رستم زماں انکار کر سکا اور نہ ہی فاتح عالم، سب کے سب کو جانا پڑا، آ دم زادے نہیں سمجھتے کہ سانس کے ساتھ آس، زندگی قدرت کا حسین تحفہ ہے لیکن اس کے مالک آ پ نہیں وہی کون و مکاں کا مالک ہے جس نے سب کچھ بنایا، دنیا جہان کی نعمتیں دیں اور خود لازوال ہے، باقی سب کچھ اپنے اپنے وقت پر زوال پذیر ہوگا۔ یہی اس کی قسمت میں لکھا گیا ہے۔ یعنی موت برحق لیکن کفن پر شک ہے، غیب کا علم کسی کو نہیں، اس لیے پل کی خبر نہ رکھتے ہوئے بھی آدم زادے سامان سو برس کا اکٹھا کرنے میں شب و روز مصروف پائے جاتے ہیں۔ اب ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں فصل پک چکی ہے ہمجھولیوں، ہم عصروں کی واپسی کی خبریں گاہے بگاہے ملتی رہتی ہیں، پریس گیلری کے صدر اخلاق باجوہ ہم سے چھوٹے تھے لیکن جانے میں جلدی کر گئے۔ آ ج وہ ہنستا، مسکراتا، با اخلاق، خوش لباس، خوش گفتار منو ں مٹی تلے ابدی نیند سو رہا ہے ’’ہم اور آپ‘‘ اس کے پیارے صرف اس کی خوبصورت یادوں کے سہارے خوش بھی ہو سکتے ہیں اور آ نسو بھی بہا سکتے ہیں۔ بہرحال وہ لوگ اچھی صفات کے مالک ہوتے ہیں جنہیں دنیا جانے کے بعد یاد کرتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں ’’ویسے تو ہم پیدا ہی جانے کے لیے ہوئے ہیں کیونکہ موت منزل نہ بھی سہی، ایک حقیقت ضرور ہے۔ پھر نئی دنیا، نئے معاملات اس لیے ہمعسروں کو دنیاوی معاملات کا حساب کتاب کر لینا چاہیے کیونکہ سب کے ہاتھ میں بورڈنگ کارڈ موجود ہے کسی کو پتہ نہیں کہ کب کس کی روانگی کے لیے سیٹ کنفرم ہو جائے لہذا اگلی دنیا کے لیے ایسے معاملات میں تاخیر نہ کریں جن کا حل اسی دنیا میں ہو سکتا ہے۔ بات بھی درست ہے۔ ابھی اخلاق باجوہ کی داستان غم پوری نہیں ہوئی، کئی اور دنیا چھوڑ گئے دوست، ساتھی، سنگی سب قیمتی ہوتے ہیں، چاہے قریب ہوں کہ غم دنیا میں فاصلہ اختیار کر جائیں، دعا یہی ہوتی ہے کہ جہاں ہوں خوش ہوں، زندہ ہوں گے تو ملاقات بھی ہوگی لیکن دائمی دوری پریشانی اور دکھ کا باعث بنتی ہے، فون کی گھنٹی بجی، ہیلو کیا، تو ایک دوست نے کہا ’’ایک تھا اکرم شیخ۔۔۔ نہ رہا‘‘ یک دم سکتہ سا طاری ہو گیا پھر ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھتے ہوئے دل کو تسلی دی کہ جس کا مال تھا وہ لے گیا۔ یہی نظام قدرت ہے آ ج وہ ،تو کل ہماری باری، انکار کی جرأت بھلا کس کوبلکہ اجازت ہی کسی کو نہیں، جس جان پر ہم اکڑے پھرتے ہیں اسے پیاروں پر نچھاور کرنے کے دعویدار ہیں حقیقت میں تو وہ امانت ہے اور ہم اس کے ’’کیئر ٹیکر‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں، اللہ درجات بلند کرے،جوار رحمت میں جگہ دے،
اکرم شیخ کمال کے انسان تھے۔ یہ الفاظ میں پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آدمی کو بھی میسر نہیں، انساں ہونا۔ بابا بلھے شاہ کی نگری قصورکا یہ ’’قلم مزدور‘‘ نہ صرف کمٹمنٹ اور وفاداری سے بابا بلھے شاہ کو روحانی پیر مانتے ہوئے عمر گزار بیٹھا بلکہ انگنت نقش بھی چھوڑ گیا۔ پنجاب کی مٹی کی خوشبو اس کی ہر تحریر، ہر لفظ میں محسوس کی جا سکتی ہے پنجابی زبان کے لیے سر دھنتے رہے۔ ایک درجن سے زائد کتابیں پنجاب اور پنجابی سے ان کی محبت کا ثبوت ہیں۔ ماں بولی پنجابی کے لیے مختلف تنظیموں نے اس قدر کام نہیں کیا جتنا اس مرد قلندر نے اکیلے کر دکھایا، جس کی پذیرائی سرحد کے دونوں جانب کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ہونے والی تمام ایسی تقریبات میں جو پنجابی کے حوالے سے ہوئیں وہاں وہ گئے یا نہیں لیکن انہیں مدعو ضرور کیا گیا۔ اسی لیے بھارتی پنجاب سے پاکستان کا دورہ کرنے والے لکھاری انہیں لاہور آ کر تلاش کیے بغیر نہیں رہتے تھے۔ خاص طور پر ’’پنجابی اور بلھے شاہ لورز‘‘ کے حوالے سے اکرم شیخ کے خصوصی قدردان تھے کیونکہ وہ سال کے 12 مہینے 365 دن اسی جستجو میں رہتے کہ پنجابی اور بابا جی کے کسی حوالے سے کچھ نیا لکھا جائے، اخبارات میں نیوز ایڈیڑی کی اور پنجابی اخبار ’’پلیکھا‘‘ میں خدمات بھی انجام دیں، کالم نویسی میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے صحافت اور ادب میں ان کے شاگردوں کی تعداد بھی خاصی ہے لیکن نہیں جانتا کہ کوئی اپنے استاد کی طرح ماں بولی ’’پنجابی اور بلہے شاہ‘‘ سے محبت جتانے کا سچا جذبہ بھی رکھتا ہے کہ نہیں، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کتاب دوست کی محرومی کے دور میں،، اکرم شیخ ایک تھا۔۔جو نہیں رہا،،، یقینا اسے اپنے کام کے حوالے اور سچی پنجابی محبت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ،شیخ صاحب کا میرا تعلق برسوں پرانا تھا اب ٹوٹا تو صدمہ ہوا لیکن جو اللہ کی مرضی، صحافت ،پریس کلب، ادبی تقریبات کے علاوہ برسوں میرے ہمسائے بھی رہے اس لیے میں ان کی شخصیت اور مزاج سے خاصا واقف تھا۔ مختلف معاملات میں ہماری سوچ بھی متضاد پائی جاتی تھی لیکن کبھی ہم دونوں نے رواداری اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑا، ان کے بال برسوں سے سفید تھے جس نے ان کی شخصیت کو نیا رنگ دے رکھا تھا لیکن یہ بال شیخ صاحب نے دھوپ میں سفید ہرگز نہیں کیے تھے ان کا تجربہ، مشاہدہ اور معلومات میں تحقیق کی جھلک ہمیشہ ملتی تھی اس لیے وہ کبھی سطحی بات نہیں کرتے تھے، اگر یہ کہا جائے کہ لکھنا، پڑھنا اور کتابیں ہی ان کا سب کچھ تھا تو بیجا نہ ہوگا شیخ صاحب چند سال پہلے بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن یہ ہجرت خوشحالی اور ترقی کے حوالے سے تھی۔ ان کی اور صاحبزادے کی محنت رنگ لائی تھی اور ایک خوبصورت گھر ان کا نصیب بنا تھا ہمارا نقصان اس ہجرت نے صرف یہ کیا کہ بطور ہمسایہ جب بھی وہ اپنے ہاتھ سے نہاری بناتے تھے تو ہمیں بھی دینے آ یا کرتے، نہاری بھی خوش ذائقہ اور لذیز ہوا کرتی تھی، پچھلے دنوں فون پر بات ہوئی تھی ملاقات کا تقاضا میں نے کیا تو کہنے لگے ’’میں اس ہفتے قصور جاؤں گا تو نہاری بنا کر ملنے آ ؤں گا،، انہیں لاہوری گوشت اور قصاب پسند نہیں تھے اپنی سپیشل نہاری کے لیے گوشت لینے بھی قصور ہی جاتے تھے ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے اور وہ دنیا ہی چھوڑ گئے ایسی خاموشی سے مالک کے دربار میں حاضری دے دی کہ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی فون بھی ابھی تک خاموش ہے اور ان کے دولت خانے کا بھی علم نہیں، ہم اپنے یار کو نہ کندھا دے سکے اور نہ ہی ابھی تک تعزیت کرسکے، خدا ان کی منزلیں آ سان کرے،اصل میں قدرت کی یہی ’’جمع تفریق‘‘ ہے اس لئے کچھ کیا نہیں جاسکتا، اللہ مغفعرت فرمائے، باکمال تھا بندہ درویش۔