شہری سڑکوں سے زیادہ‘ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش سے پریشان
جن لوگوں کی عملیات میں دلچسپی ہے‘ وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ بست و کشاد یعنی بندش اور کھولنے کیلئے فارسی کا ایک عمل ہے۔ جو بست کا یعنی بندش و رکاوٹ کیلئے ہوتا ہے۔ عمل تو کافی طویل ہے‘ وہ عامل جانیں اور اس پر عمل کرنے والے۔ مگر ایک جملہ ہی دیکھ لیں اورموجودہ صورتحال کے حوالے سے غور کریں۔ بستم‘ بستم‘ بستم‘ دل بند‘ جگر بند‘ نظر بند‘ زبان بند۔ یہ مخالفین کی بندش کیلئے کامیاب عمل سمجھا جاتا ہے۔ اسی کو دیکھ کر شاید حکمرانوں نے یہ شہروں کو بند کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی احتجاج اور دھرنے پر یہی عمل کچھ یوں کیا جاتا ہے۔ سڑک بند‘ گلی بند‘ چوک بند شہر بند۔ جابجا رکاوٹیں کھڑی کرکے اچھے بھلے شہر کو گھوسٹ سٹی بنا دیا جاتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں‘ ہر حکومت کے دور میں اپوزیشن کے حوالے سے یہی پالیسی اختیار کی جاتی ہے جس کا سارا نزلہ عوام پر گرتا ہے۔ وہ بے چارے خوار ہوتے ہیں۔ مظاہرین تو نکلے ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ خود بھی خوار ہوں گے اور دوسروں کو بھی خوار کریں گے۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے۔ یہ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی پریکٹس عرصہ دراز سے ہماری سیاست میں داخل ہے۔ لوگوں کو اب اس تماشے کی عادت ہو گئی ہے۔ مگر سب سے زیادہ جو چیز اب ان پر گراں گزر رہی ہے‘ وہ ہے موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی بندش۔ یہ لوگوں کیلئے سخت گراں مرحلہ ہوتا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے عادی تو چند لمحے انکے بغیر گزار نہیں سکتے۔ ان پر غشی طاری ہونے لگتی ہے۔ لگتا ہے جان کنی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اب یہ ایک موثر حربہ بھی ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے تاکہ مظاہرین کا کسی اور سے رابطہ ہی ممکن نہ رہے۔ مگر عام آدمی اس پابندی کی زد میں زیادہ آتے ہیں۔ جن کے لئے یہ باقی بندشوں کی نسبت زیادہ تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔ ان میں سے اکثریت تو مظاہروں کی بجائے گھروں میں بیٹھ کر سکون سے بستر یا صوفہ توڑنے پر یقین رکھتی ہے۔
٭…٭…٭
کراچی کو خطرناک ترین سے پرامن ترین شہر بنا دیا ہے‘ وزیراعلیٰ سندھ۔
سندھ کے وزیراعلیٰ کو نجانے کیوں یہ احساس ہو رہا ہے۔ انکے دارالحکومت کراچی میں ہر طرف خیر ہی خیر ہے۔ شر کا وجود ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ پنجابی میں جسے ’’ستے خیراں‘‘ کہتے ہیں‘ یعنی ہر طرف شانتی ہی شانتی ہے۔ جبکہ باقی سب باتوں سے قطع نظر اگر ہم صرف سٹریٹ کرائم کے حوالے سے ہی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ خواب و خیال سے ہٹ کر اصل حقیقت نہایت تلخ ہے۔ روزانہ چوری‘ ڈکیتی اور چھینا جھپٹی اور دیگر وارداتوں میں ایک دو نہیں متعدد افراد مزاحمت کی صورت میں قتل ہو جاتے ہیں۔ یہ روزانہ کا معمول ہے۔ ہر روز کئی درجن وارداتوں میں سڑکوں پر سرعام پیدل ہوں یا سوار‘ شہری لوٹ لئے جاتے ہیں۔ جس نے ہمت دکھائی‘ اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ اسکے باوجود شاہ جی کا یہ کہنا کہ دنیا کا چھٹا خطرناک ترین شہر اب امن کا نمونہ بن گیا ہے۔ یہ شاعرانہ تعلی تو ہو سکتی ہے حقیقی بات نہیں۔ پولیس کئی ڈاکوئوں کی گرفتاری کا دعویٰ کرتی ہے۔ کئی تو لوگ خود زدوکوب کرکے پولیس کے سپرد کرتے ہیں۔ مگر وارداتیں جاری ہیں۔ سڑکوں پر سفر کرنے والا کوئی بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔ یہ ظالم ڈاکو اور چور جن میں مقامی، دوسرے علاقوں سے آنے والے اور غیرقانونی تارکین شامل ہیں‘ کسی سے خوفزادہ نہیں۔ کیونکہ انکے سرپرست بھی خاصے تگڑے ہوتے ہیں۔ باقی جرائم کا ذکر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تنگی داماں کا احساس ہوتا ہے۔ اس حوالے سے تو پورے سندھ کی حالت اچھی نہیں۔ مگر اس کا تذکرہ کرکے ہم وزیراعلیٰ سندھ کو مزید دکھی کرنا نہیں چاہتے۔ کئی دہائیوں سے انکی جماعت سندھ پر حکومت کر رہی ہے مگر سندھ کے حالات نہ پہلے بدلے نہ اب بدلتے نظر آرہے ہیں سب ویسا ہی ہے۔
٭…٭…٭
اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا۔
یہ عجیب منطق ہے کہ جو آپ کے مظالم پر زیادتیوں پر آپ کی مذمت کرے یا خاموش رہیحمایت نہ کرے‘ اس کو آپ ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا جائے۔ اب اس فیصلہ سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اسرائیل آنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس سے بھلا انتونیو گوئترس کی صحت پر کیا اثر پڑیگا۔ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ نیتن یاہوں کے پرائیویٹ سیکرٹری نہیں۔ اس وقت کون ہے جو اسرائیل پر نفرین نہیں بھیج رہا۔ اسے برا بھلا نہیں کہہ رہا‘ اسکی وجہ کیا اسرائیلی حکومت کو معلوم نہیں۔ اس نے غزہ‘ بیروت میں جو تباہی پھیلائی ہے‘ ہزاروں افراد کو بمباری کرکے مار دیا ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر کردیئے‘ اب اسکی جرات اور بڑھ گئی ہے کیونکہ کوئی بھی مسلم یا غیرمسلم ملک اسکی راہ روک نہیں رہا۔ اسلامی ممالک صرف دعائوں اور بیانات سے فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی بربادی کے خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ خود اسرائیل کے وزیراعظم اپنی جارح فوج کے حوصلے بڑھانے کیلئے خود فوجی وردی پہن کر اگلے مورچوں کے دورے کر رہے ہیں اور ہمارے مسلم حکمران اپنے محلات میں بیٹھ کر بیان جاری کرتے ہیں۔ کیا اس طرح دشمن کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ فلسطین‘ لبنان‘ شام یمن کے بعد اب وہ ایران کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اب کیا اقوام متحدہ کو اپنی عزت کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ نیتن یاہو کو شٹ اپ کال دیتی ہے یا نہیں۔ اقوام متحدہ کے ارکان کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کیخلاف سخت تادیبی اقدامات کا مطالبہ کریں۔ شرم کی بات ہے کہ امریکی پالتو چوہا شراب کے پیپے سے نکل کر مدہوشی کے عالم میں اودھم مچا رہا ہے اور تمام بڑے چھوٹے ممالک اس سے خائف ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار امریکہ‘ برطانیہ اور انکے حلیف اس پر ہاتھ ڈالنے والوں کو دھمکا رہے ہیں کہ خبردار ہم اسرائیل کی حفاظت کیلئے ہردم تیار ہیں۔ کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔
٭…٭…٭
کوسٹ گارڈ نے سمندر میں آہنی تاریں لگا دیں۔
ایرانی تیل کی خشکی اور سمندر کے راستے پاکستان میں تیل کی سمگلنگ کوئی نئی بات نہیں‘ عرصہ دراز سے یہ کام جاری تھا‘ پہلے مقامی لوگ جن کے پاس بنجر بیابان علاقے میں اور کوئی روزگار نہیں تھا‘ یہ کام کرتے تھے۔ چھوٹی موٹی کشتیوں‘ یا چکھڑوں میں تیل کے پیپے (گیلن)بھر کر لاتے اور صوبے کے شہروں میں فروخت کرکے کچھ رقم کما لیتے کیونکہ ایران میں تیل کافی سستا ہے۔ اب بڑے بڑے سمگلر مافیا نے یہ کاروبار سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے اپنے کارندے بھرتی کئے اور مقامی افراد کو جدید ترین گاڑیاں اور سپیڈ بوٹس خرید کر اس تیل کا دھندہ شروع کر دیا۔ لاکھوں لگا کر کروڑوں کمانے لگے۔ جب حکومت نے سختی کی‘ تیل کی سمگلنگ روکنے لگی تو وہاں (گوادر) کے عوام کو بھڑکانا شروع کردیا کہ حکومت ہمارا معاشی قتل عام کر رہی ہے جس کی وجہ سے وہاں اس سمگلنگ مافیا نے اچھی خاصی گڑبڑ شروع کروا دی۔ جو اب بدامنی بن چکی ہے اور مسلح گروہ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب تو کوسٹ گارڈ نے ایران سے منسلک سمندر میں خاردار تاریں لگا کر سپیڈ بوٹس کی آمدورفت بھی بند کر دی ہے جس کے بعد حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ یہ بات البتہ قابل غور ہے کہ جب تک کوسٹ گارڈ اور بارڈر سکیورٹی گارڈ کو ماہانہ رشوت ملتی تھی‘ سب اچھا رہا۔ اب کہیں یہ ’’نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز‘‘ والا معاملہ تو نہیں کہ منتھلی زیادہ کی جائے۔ اب تو کوئٹہ سے کراچی اور ملتان تک ایرانی تیل فروخت ہو رہا ہے۔ اسے کوئی قانونی شکل کیوں نہیں دی جاتی تاکہ عوام کا روزگار بھی لگا رہے۔ حکومت کو بھی فائدہ ہو اور سمگلنگ کا بھی خاتمہ ہو۔ جن کی وجہ سے 60 سے 70 روپے فی لٹر تک ملنے والا پٹرول اب 200 روپے تک مل رہا ہے۔ یعنی اصل فائدہ تو یہ مافیا کما رہا ہے اور عوام کو چند پیسے دیکر گاڑیاں اور بوٹ دیکر خوش کرتا ہے۔
اتوار ‘ 2 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 6 اکتوبر 2024ء