اسرائیل گزشتہ ہفتے کے ایرانی میزائل حملوں کے جواب کی تیاری کر رہا ہے تو دوسری طرف پاسداران انقلاب کے ایک ذریعے نے تصدیق کی کہ تہران کسی بھی ممکنہ حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ خبر ایجنسی ’’ تسنیم‘‘ نے اتوار کو رپورٹ کیا کہ پاسداران انقلاب کے ذریعہ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس اسرائیل کے اندر ایسے اہداف ہیں جنہیں کسی بھی حملے کی صورت میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایران نے بندر عباس اور بوشھر سے بحری جہازوں کو نکالنے کی تردید کی۔
خامنہ ای کمپلیکس
یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی ذرائع نے اتوار کے اوائل میں کہا تھا کہ ٹارگٹ کردہ اشیا میں ایران کے اندر اہم اقتصادی نظام جیسے تیل اور گیس کی سہولیات شامل ہوسکتی ہیں۔ اسرائیلی چینل 12 کے مطابق متوقع اسرائیلی حملے ایرانی صدارتی کمپلیکس اور سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے کمپاؤنڈ کے ساتھ ساتھ تہران میں پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹرز کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
واشنگٹن کے ساتھ کوآرڈینیشن
ذرائع نے کہا ہے کہ یہ اہداف اسرائیل میں فیصلہ سازوں کی میز پر موجود کچھ آپشنز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر چونکہ تل ابیب طاقت سے کام کرنے سے پہلے امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کو ترجیح دیتا ہے۔ چونکہ اسرائیلی ردعمل کے سنگین نتائج کی توقع ہے اور اس کے لیے امریکی تعاون کی ضرورت ہے۔
تیل یا ایٹمی تنصیبات
کچھ دن قبل اسرائیلی حکام نے ایرانی اہداف کی ایک متوقع فہرست کا حوالہ دیا جو بڑے اسرائیلی ردعمل کے دائرہ کار میں آسکتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اسرائیل ایران میں سٹریٹجک مقامات پر حملہ کر سکتا ہے جن میں سے ایرانی تیل یا حتیٰ کہ جوہری تنصیبات بھی شامل ہو سکتی ہے۔
اسرائیلی حکام نے کہ بھی کہا کہ اسرائیلی ردعمل میں جنگی طیاروں کے فضائی حملے اور ایسی خفیہ کارروائیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں جن میں جولائی میں تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کیا گیا تھا۔ حکام نے کہا کہ اس مرتبہ ردعمل "بہت زیادہ" ہوگا۔