سیکولرزم‘ لبرلزم اور اسلام…(i)

Sep 06, 2010

سفیر یاؤ جنگ
تحریر: محمد فاروق ناطق.....
اسلام اور اہل اسلام تقریباً 70 برس تک (1917ء میں روس میں بالشویک انقلاب سے 1988ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست تک) کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ ان نظریات کے ساتھ اہل اسلام نے اپنی جنگ ذہن کی دنیا سے نکل کر ذرائع ابلاغ‘ معیشت‘معاشرت‘ سیاست یہاں تک کہ فوجی جنگی میدانوں میں بھی لڑی۔ اس جنگ میں کمیونزم اور سوشلزم کو شکست اس لئے ہوئی کہ ان کا غیر فطری اور انسان کے جسمانی اور روحانی مفادات کے خلاف ہونا اہل اسلام نے بہت پرزور دلائل کے ساتھ دنیا کے تمام اہل علم ودانش اور عوام الناس پر ثابت کیا تھا۔ (امریکی اور یورپی ممالک کی مخالفت سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت تھی‘ چونکہ ان ممالک میں برسرِ اقتدار طبقات خود بھی لادین اور سرمایہ پرست ہیں‘ لہٰذا کمیونزم اور سوشلزم کا لادین ہونا ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں تھا) مذکورہ دونوں نظریاتی اپنی نوع کے اعتبار سے اصل نظریاتی نہیں ہیں بلکہ لبرلزم اور سیکولرزم کے محض فروع ہیں۔ ’’کمیونزم اور سوشلزم کا خالق کارل مارکس ایک غیر مذہبی شخص تھا جس کا باپ ہنرچ خاندانی طور پر ایک یہودی‘ ایک جرمن شہری اور پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور فکری طور پر یورپ میں برپا (خدا بیزاری پر مبنی) تحریک احیائے علوم کے سرخیل فلسفیوں والٹیئر اور کانٹ سے متاثر تھا۔ کارل مارکس کے باپ نے یہودی ریبوں کے سلسلہ نصب سے منسلک ہونے کے باوجود غالباً اپنی پیشہ وارانہ ضرورت کے تحت ایوینجلیکل عیسائیت میں بپتسمہ لیا اور چھ برس کی عمر میں کارل مارکس کو بھی بپتسمہ دے دیا مگر اپنی عملی زندگی میں وہ ایک سیکولر یعنی لادین شخص تھا۔ کارل مارکس کے کمیونزم کی شکل میں طبقاتی کشمکش کا علمبردار ہونے کا پس منظر (یورپ میں ظالمانہ جاگیرداری نظام کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ۔ مضمون نگار) شاید یہ تھا کہ اس کی قوم یہود کے ساتھ یورپ کے تنگ نظر عیسائی مذہبی لوگوں نے ازمنہ وسطیٰ کے دوران بہت برا سلوک کیا تھا عیسائی اہل مذہب کے امتیازی سلوک نے اسے نفس مذہب ہی سے بیزار کر دیا اور وہ بہت جلد مشہور خدا فراموش جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کا خوشہ چین بن گیا‘‘ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا)
اسلام چونکہ ایک دین (بمعنی مکمل نظام زندگی) ہونے اور انسانوں کے تمام دنیاوی امور میں خدا کی حاکمیت کا قائل اور علمبردار ہے اور لبرلزم اور سیکولرزم کی تو بناء ہی خدا اور حیات بعد الموت سے انکار پر رکھی گئی ہے اس لئے اسلام کے اصل دشمن لبرلزم اور سیکولرزم ہیں مغربی ممالک چونکہ رسمی طور پر عیسائی اور خدا کے قائل ہیں اس لئے ان ممالک میں حکومت‘ معاشرت اور معیشت کی سطح پر لبرلزم کے غلبے کو اہل اسلام نے عام طور پر کمیونزم اور سوشلزم کی طرح کافوری خطرہ نہیں سمجھا۔ مغربی ممالک کا سیکولرزم‘ کمیونزم اور سوشلزم کے زوال کے بعد اب خم ٹھونک کر اسلام کے مد مقابل آ گیا ہے۔ مغرب کا سیکولر دانشور طبقہ اور وہاں کے ذرائع ابلاغ حکومتی قوت کی پشت پناہی کے ساتھ دین اسلام کے خلاف فکری لڑائی میں مشغول ہیں اور وہاں کی حکومتیں پوری فوجی قوت کے ساتھ اہل اسلام پر حملہ آور ہیں۔ اس جنگ میں مسلمان ممالک کے سیکولر حکمران اور بیشتر سیاستدان اپنے مفادات کی خاطر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت لبرلزم‘ سیکولرزم کو نہ سمجھنے کے باعث اس لڑائی کو ایک گومگو کی حالت میں دیکھ رہی ہے۔ لبرلزم اور سیکولرزم کے وہ علمبردار جو مسلمان ممالک کے شہری ہیں عوام الناس کو ایک دھوکے میں مبتلا کئے ہوئے ہیں یہ لوگ خدا‘ رسولؐ‘ قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر‘ لبرل ہو سکتا ہے یہ لوگ سیاسی‘ ادبی‘ صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں اثر ونفوذ رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ اور حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ معاشرے کے تمام شعبوں سے خدا اور اسلام کو بے دخل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ سیکولرزم کی ساخت کے عین مطابق یہ سیکولر حکمران‘ دانشور مسلمانوں کے مراسمِ عبودیت اور رسوم ورواج کی نہ صرف مخالفت نہیں کرتے بلکہ خود بھی ان کو اختیار کر کے عوام کو اپنے متعلق پکے مسلمان ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور مسلمان عوام اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔ آیئے دیکھیں کہ سیکولر اور لبرل ہونے کے دعوے دار مغربی دانش وروں کے نزدیک سیکولرزم اور لبرلزم کا مفہوم کیا ہے کیونکہ ان اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر ہو سکتا ہے جو ان اصطلاحات کے خالق اور قائل بیان کریں۔
لبرلزم: لفظ ’’لبرل‘‘ قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’’لائیبر‘‘(Liber) اور پھر ’’لائبرالس‘‘ (Liberalis) سے ماخوذ ہے‘ جس کا مطلب ہے ’’آزاد۔ جو غلام نہ ہو‘‘ آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کیلئے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد‘ تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔ اٹھارویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدایا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی یعنی اب لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو اور لبرلزم سے مراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اور نظام اخلاق وسیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔یہ تبدیلی اٹلی سے چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی تحریک احیائے علوم (Renaissance یعنی Re-Birth) کے اثرات یورپ میں پھیلنے سے آئی۔(جاری ہے)
مزیدخبریں