ستمبر 1965ءمدافعت اور تفاخر کی تاریخ

Sep 06, 2011

سفیر یاؤ جنگ
عزیز ظفر آزاد
میر عرب نے جس جانب سے ٹھنڈی ہوا کی بشارت دی اسی لمحے اس سمت کی قسمت بدل گئی پھر حضرت قائداعظم نے فرمایا کہ جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا پاکستان کی بنیاد پڑ گئی ۔ مسلم لیگ کی جدو جہد اور قائداعظم کے مدلل موقف کے آگے ہندو کی مکاری اور انگریز کی شر انگیزی بے بس ہوگئی۔ سازشیوں نے کوشش کی کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی دم توڑ جائے ۔ گاندھی تقسیم بھارت کو ماتا کے ٹکڑے کرنے سے تعبیر کرتا تھا مہا بھارت کو توڑنے کو خدا ﺅں کا غضب تصور کرتے تھے لہٰذا اکھنڈ بھارت ہندو دھرم کا بنیادی عقیدہ حصہ ہے ۔
ہر ہندو اپنے دھرم کے مطابق مہابھارت کےلئے اکھنڈ بھارت کے فلسفہ پر کاربند تھا اور ہے ۔ بھارتی مہاشوں نے جب دیکھا کہ پاکستان ہزار چالوں سازشوں کے باوجود اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا جا رہا ہے تو نئی منصوبہ بندی کے تحت جمہوریہ چین سے چھیڑ خانی کی گئی چھوٹی موٹی جھڑپوں کابہانہ بنا کردنیا کے سامنے عدم تحفظ کا واویلا کیا جس کے جواب میں روس امریکہ اور یورپی ممالک سے گولا بارود اور اسلحہ کے ڈھیر بھارت منتقل ہونے لگے ۔
ہندو چین سے لڑنے کی جسارت تو نہیں کر سکتا تھا البتہ ساراڈرامہ فوجی قوت کا حصول تھا اب مکار بنئے نے اس اسلحے کے زور پر پاکستان کو نہ صرف دھمکانا شروع کیا بلکہ اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیر دینے کی حکمت عملی مرتب کی ۔
گولا بارود اور عسکری برتری کے تکبر میں مبتلا بدمست بھارتیوں نے بھارتی گجرات سے متصل علاقہ رن آف کچھ پر ہماری رینجرزسے چھیڑ چھاڑکی ۔4اپریل 1965ءکو باقاعدہ حملہ کرکے خنجر کوٹ اور ڈھنگاور اور دیگر علاقوں پر قابض ہوگیا ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے جنرل ٹکا خان کو یہ علاقہ خالی کرانے کی مہم سونپی جو جلد اور خوش اسلوبی سے بھارتی ٹڈی دل سے خالی کرالیے گئے ۔
بھارتی فوج کو خاصا نقصان ہوا امریکہ ساخت کا خطیر اسلحہ اور گاڑیاں بھی مال غنیمت کےساتھ حاصل ہوئیں۔ اس شرمناک شکست کے جواب میں لعل بہادر شاستری نے بین الاقوامی سرحدی قانون کو پامال کرتے ہوئے اب اپنی مرضی کا محاذ کھولنے کا عندیہ دیا مئی 65ءمیں کشمیر کے سکردو سیکٹر میں پاک فوج کی تین اہم چوکیوں پر قبضہ کرلیا جہاںہمارے چند سکاﺅٹ تعینات تھے ۔ان حرکتوں کےساتھ بھارت مسلسل پاکستانی بارڈر کے قریب فوجیں بڑھاتا رہا ۔کنٹرول لائن کےساتھ تقریبا ً ڈیڑھ لاکھ فوج پہنچ چکی تھی پاکستان نے اسکے جواب میں اپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے 14جولائی 65ءکو مجاہدین کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کر دیا ۔
7اگست کو مقبوضہ کشمیر میں زبردست کارروائی سے بھارتی حکومت اور فوج بری طرح بوکھلا کر سرینگر کی طرف چل دوڑی ۔ پاکستانی فوج یکم ستمبر کو چھمپ کے راستے جنگ بندی لائن عبورکرکے دریائے توی تک جا پہنچی۔ بھارتی غرور کو ملیا میٹ کرتے ہوئے جوڑیاں پر قبضہ کرلیا ۔ ہماری وزارت خارجہ نے آخری وقت تک یقین دہانی کرائی کہ بھارتی بین الاقوامی لائن عبور نہیں کرینگے مگر بھارت نے 5اور 6ستمبر رات کی تاریکی میں غیراعلانیہ طور پر لاہور کے تین اطراف سے حملہ کیا تاکہ لاہور پر آسانی سے قبضہ ہو سکے ۔ ان فرعون زادوں نے لاہور کی جانب رخ کرتے ہوئے اپنے ذرائع ابلاغ پر اعلان داغ دیا کہ لاہورپر قبضہ ہو چکا ۔
بی بی سی نے بھی تصدیق کے بغیر خبر جاری کردی کہ بھارتی فوجیں لاہورمیں داخل ہوگئیں ۔ ٹینکوں جہازوں اور بارود کے بل پر انہیں یقین تھا کہ چند گھنٹوںمیں لاہور ہمارا ہوگا بلکہ بھارتی وزیراعظم اور کمانڈر نچیف جنرل چوہدری اپنی کابینہ کے چند ارکان کے علاوہ دیگر اہم بھارتی عہدیداروں کو ڈنر کی دعوت لاہور جم خانہ میں جشن فتح منانے کےلئے دے چکے تھے مگر وہ تاریخ کے سبق بھول گئے تھے انہیں ادراک ہی نہ تھا کہ لاالہ الا اللہ کے کلمہ میں کتنی قوت ہے اب اس ارض پاک کی حفاظت اسلحہ اور بارود سے زیادہ شوق شہادت کے ذریعے ہوگی ۔اس کشور حسین کے محافظ غازیوں شہیدوں اور سرفروشوں سے مقابلہ ٹڈی دل لشکر کے بس کی بات نہیں ۔
لاہور محاذ پر ایک جانب میجر آفتاب اللہ اور ان کے مختصر ساتھیوںنے بر وقت بی آربی نہر پر واقع تمام پل توڑ ڈالے دوسری سمت میجر حبیب اللہ نے ہڈیارہ گاﺅں کے نزدیک ایک کمپنی کی مدد سے دشمن کے سات ڈویژن کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا ۔ تیسری طرف میجر عزیز بھٹی شہید کی کمپنی نے لہوکی دیوار سے بھارتیوں کا رستہ دشوار کر ڈالا ان کی بہادری اور کامیاب حکمت عملی کے اعتراف میں جناب میجر عزیز بھٹی کو نشان حیدر کا اعزاز دیا گیا ۔ محاذ پر توفوج کے جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے گلشن کے تحفظ کی قسم کو نبھارہے تھے دوسری جانب لاہور کے عام شہری ڈنڈے کلہاڑیاں اور گنڈاسے لیکر سرحد کی جانب جوق در جوق رخ کئے ہوئے تھے ہر بندہ خدا رضائے الٰہی کےلئے شوق شہادت نوش کرنے کو بیتاب و بیقرار نظر آرہا تھا ۔ منظر دیدنی تھا زندہ دلان لاہور ہوائی حملوں سے بے خوف لطف اندوز ہو رہے تھے کسی محاذ پر بھی جذبہ ایمانی میںکمی نہیں دکھائی دی ۔
صوبہ سندھ میں حر مجاہدین پاک فوج کے شانہ بشانہ شجاعت کی داستانیں رقم کر رہے تھے کشمیر اور سیالکوٹ کے محاذ پر پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارتی فوج کے کئی ڈویژنوں کو ناکارہ کر رکھا تھا ۔ سیالکوٹ کا محاذ چونڈہ ٹینکوں کی لڑائی کے حوالے سے اپنی تاریخ رکھتا ہے بھارتی اور مغربی ذرائع کے مطابق چھ سو ٹینکوں کا حملہ پسپا ہونا کرنا ممکن نہ تھا مگر اللہ کے سپاہیوں نے اپنے سینے پر بم باندھ کراور اسے ناکام بنا کر دنیائے حرب میں شجاعت کی نئی تاریخ رقم کر ڈالی ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی پیدل انسانو ں نے جیتی۔ بھارتی کمانڈر میجر جنرل نارنجن اس محاذ سے زخمی حالت میں پیدل فرار ہوا ۔1965کی جنگ ستمبر شہیدوں غازیوں شہ سواروں کے خون سے لکھی وہ دلآویز داستان ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کو ہمیشہ حرارت ایمانی اور سرفرازی عطا کرتی رہے گی ۔ بریگیڈیئر احسن رشید شامی ، خواجہ یونس حسن اور ایم ایم عالم کے کارنامے دنیائے حرب میں ہمیشہ پاکستان کو سرخر و اور سرفراز رکھیں گے ۔
1965ءکی جنگ نے جہاں پاکستانی قوم اور فوج کو بے انتہا خوداعتمادی‘ قوت مدافعت اور احساس تفاخر عطا کیا وہاں ہنود یہود کو مزید قریب لانے کا سبب بھی بنی اس جنگ کے بعد اسلام دشمن قوتیں اس نکتہ پر اتحاد و اتفاق کر چکی ہیںکہ اگر پاکستان کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر آگیا تو دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو دنیا میں پھیلنے سے نہیں روک سکتی لہٰذا جمعیت کفار مشترکہ طور پر اس مشن میں تمام وسائل جھونک رہی ہے جس کے بے شمار ثبوت افغانستان‘ صوبہ‘ سرحد‘ سندھ خصوصاً کراچی اور بلوچستان میں نظر آنےوالی انارکی نفاق انتشار اور خلفشار سے مہیا ہو چکے ہیں فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم نے اغیار کی غلامی کرنی ہے‘ یا لاالہ الا اللہ کا پرچم بلند رکھنا ہے ؟
مزیدخبریں