کراچی (تنویر بیگ) کراچی میں جولائی کے بعد اگست بھی خون آشام ثابت ہوا۔ جولائی میں 346 افراد کی ہلاکت کے بعد اگست میں تشدد اور فائرنگ کے واقعات میں 316 افراد جاںبحق ہوئے جبکہ عیدالفطر کے موقع پر بھی مار کاٹ جاری رہی اور رواں ماہ کے ابتدائی پانچ روز میں ہی بیس سے زائد افراد دہشت گردی کی نذر ہو گئے۔ ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق اگست کے دوران زیادہ تر افراد کو اغوا کے بعد بے رحمانہ تشدد اور گردنیں کاٹنے کے علاوہ گولیاں مار کر قتل کیا گیا اور ان کی نعشیں بوریوں میں بند کر کے پھینکی گئیں۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ ایسے تاجر اور دکاندار بھی شامل تھے جنہوں نے بھتہ دینے سے انکار کیا۔ اگست کراچی کے شہریوں کیلئے ایک بھیانک خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب لوگوں کو بسوں اور منی بسوں سے اتار کر‘ شناختی کارڈ چیک کر کے اغوا اور قتل کیا گیا۔ اس خوفناک فضا میں کراچی کے شہری شدید خوف و ہراس کا شکار رہے اور انہوں نے بلاضرورت گھروں سے نکلنا تک چھوڑ دیا تھا۔ اس دوران اغوا ہونے والے کئی ایسے خوش نصیب بھی تھے جو زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے جبکہ کئی افراد مردہ سمجھ کر بوریوں میں پھینکے گئے اور زندہ بچ گئے اس دوران جو علاقے دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے ان میں لیاری‘ لی مارکیٹ ‘ پاک کالونی‘ پرانا گولیمار‘ گلستان جوہر‘ نارتھ کراچی‘ اورنگی ٹاﺅن‘ کٹی پہاڑی‘ پیرآباد‘ قصبہ کالونی اور بلدیہ ٹاﺅن قابل ذکر ہیں۔
کراچی / اگست