6 ستمبر.... یوم تجدید عہد غیرت و حمیت

ملت اسلامیہ کی تاریخ میں یوں تو بہت سے ایسے دن اور واقعات موجود ہیں جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ کی تاریخ ایک نہایت درخشندہ و پائندہ تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے اور بلاشک و شبہ و جہ فخر و مباہات ہے، اس لازوال تاریخ میں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، خالد بن ولید، سلطان صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان اور حیدر علی اپنی اپنی جگہ ایک مستقل اور اہم ابواب کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن وہ جانباز سپاہی جنہوں نے 6 ستمبر 1965ءکو جب ہندوستان کی افواج نے پاکستان پر رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا تھا، اپنے سے کئیگنا زیادہ فوج کے دانت کھٹے کر کے رکھ دیئے اور ان کی ناپاک امیدوں اور ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ ایسے ہی جانباز مجاہدوں اور اسلام کے سپاہیوں نے ایک نئی اسلامی تاریخ رقم کی تھی۔ آج کے دن ہمارے جان فروشوں نے اپنا آج قوم کے کل پر قربان کرکے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مسلمان کفار کے ساتھ میدان جنگ میں یا شہید ہوتا ہے یا غازی کہلاتا ہے۔
قرآن حکیم کے مکمل مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے لیکن شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگنے کی تلقین نہیں فرمائی لہٰذا مسلما ن نہ شکست کھاتا ہے، نہ ہتھیار پھینکتا ہے۔ پاکستان ایشیا ہی کے مسلمانوں کا قلعہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام عالم اسلام کا قلعہ ہے اگر یہ قلعہ مضبوط و مستحکم ہوگا تو سارے عالم اسلام کے لئے قوت و استحکام کا موجب ہوگا اگر یہ قلعہ کسی لحاظ سے کمزوری اور ضعف کا سبب بنا تو پورا عالم اسلام متاثر ہوگا۔ حضرت قائداعظم نے بذات خود پاکستان کو اسلام کا قلعہ فرمایا تھا۔ چنانچہ 22 جنوری 1948ءکو قائداعظم نے جہاز ”دلاور“ کے افتتاح کے موقع پر اسی حوالے سے فرمایا کہ ”پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی الگ الگ جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے، اس کے لئے آپ کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ایمان، تنظیم اور ایثار۔ آپ اپنی تعداد کے کم ہونے پر نہ جائیے، اس کمی کو آپ کی ہمت و استقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا پڑے گا کیونکہ اصل چیز زندگی نہیں ہے بلکہ ہمت، صبر و تحمل اور عزم مصمم ہیں جو زندگی کو زندگی بنا دیتے ہیں۔“ یہ حضرت قائداعظم ہی کا روحانی تصرف ہے کہ پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں 6 ایٹمی دھماکے کرنے میں کامیاب ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسلم لیگی حکومت کو استقلال و ہمت سے دوچار کیا اور مخالفین پاکستان جو غیروں کا دم بھرتے ہیں اور عیاشیاں پاکستان میں کرتے ہیں، یقین کرسکتے تھے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا مرحلہ بھی اس طرح سے انجام پذیر ہوگا، انشاءاللہ اسلام کا قلعہ بن کر ابھرے گا۔
بات چونکہ 6 ستمبر کے حوالے سے ہو رہی تھی لہٰذا ہمارے لئے قائداعظم کا حکم ہے کہ اپنی تاریخ کی روشنی میں تیاری کرو لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی تعمیر و استحکام کے حوالے سے اپنی تیاری مکمل رکھیں۔ ہندوستان نے پاکستان کو ترنوالہ تصور کرتے ہوئے 6 ستمبر کو پاکستان کو ختم کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے حملہ کیا لیکن اس جنگ میں بھارت کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں یاد ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل کول کو بھارتی حکومت نے چھٹی دلا دی، اس پر الزام یہ تھا کہ وہ چینی سرحدی علاقوں سے متصل علاقے کا دفاع نہ کرسکا۔ نیز وہ علاقے چینیوں سے واگزار نہ کراسکا۔ جو پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت کے خیال میں بھارت کے علاقے تھے۔ چین نے جن پر قبضہ مخالفانہ کر رکھا تھا، جنرل کول نے اپنی کتاب ”The Untold Story“ میں بھارتی افواج کے کمانڈر اعلیٰ کے خوب لتے لئے اور جنگ ستمبر 1965ءمیں بھارتی افواج کی کارکردگی پر جنرل چودھری کو مطعون کیا۔ جنرل کول نے صاف لکھا کہ ہم بھارتی لوگ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھے، اسی طرح فوجی امور میں بھی پھر ہمیں کیا ہوگیا، ہمیں ان جملہ وسائل کے ہوتے ہوئے اور برتر ہونے کے باعث پاکستان کو شکست دینا چاہئے تھی لیکن صاف اور سیدھی بات ہے کہ ہم پاکستان کو شکست نہیں دے سکے۔ (پاکستان حصار اسلام، مصنفہ پروفیسر محمد منور، صفحہ نمبر268-269)
6 ستمبر کو جب بھارتی افواج پاکستان پر چڑھ دوڑیں تو صدر ایوب خان نے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے جو تقریر کی، وہ آج بھی پاکستانی قوم کا سرمایہ افتخار ہے اور غالباً یہ کلمہ طیبہ کا ورد تھا جس کی برکت سے پاکستان اس جنگ میں سرخرو ہوا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ پاکستان کے جانباز سپاہیو اور مجاہدو! دشمن پر ٹوٹ پڑو اور اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ دشمن کی توپیں خاموش نہیں ہوہ جاتیں لیکن اس فلسفے کی سمجھ نہیں آئی کہ صدر ایوب خان نے اپنی کتاب ”Friends Not Masters“ میں ستمبر 1965ءکی جنگ کا کہیں ذکر نہیں کیا حالانکہ ان کی یہ کتاب غالباً 1967ءمیں شائع ہوئی۔ ستمبر 1965ءکی جنگ صدر ایوب خان کے دور اقتدار کا اہم ترین واقعہ تھا۔ اس کے علاوہ جنرل موسیٰ کی کتاب ”My Version“ بھی شائع ہوئی جو اس وقت کمانڈر اعلیٰ کے فرائض انجام دے رہے تھے لیکن ستمبر کی جنگ کے حوالے سے انہوں نے بھی ڈنڈی ماری ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس جنگ ستمبر کے موضوع پر کوئی شہرہ آفاق تخلیق معرض ظہور میں آنی چاہئے تھی، اس سے تو یہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہمیں اپنی آزادی کی تاریخ سے کتنا لگاﺅ اور وابستگی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ستمبر کی اس جنگ میں پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کے سامنے ڈٹ گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ملکہ ترنم نور جہاں کے جنگی ترانے ریڈیو سے نشر ہوتے تھے تو آنکھوں میں آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ جذبات و احساسات کی دنیا شدید ارتعاش سے ہمکنار ہو جاتی تھی۔ وہ جنگی ترانے آج بھی لہو میں آگ لگا دیتے ہیں۔ ”اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے توں لبھدی پھریں بازار کڑے“ اور پھر یہ ”اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں“ اور ”اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں“ یہ وہ جنگی ترانے تھے جنہوں نے ہماری افواج کے جانبازوں اور سرفروشوں کو وطن پر قربان ہو جانے کے لئے ہمہ وقت تیار اور متحد کر دیا تھا لیکن یہ جذبہ اور ایمان 1971ءکی جنگ میں نہ تھا۔ ہمارے سیاستدانوں نے اقتدار کی ہوس میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیئے۔ ہماری تاریخ کو ملیا میٹ کر دیا لیکن ان تمام کا کیا حشر ہوا، تاریخ میں محفو ظ رہ گیا ہے۔ آئندہ بھی اگر قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے ساتھ کسی نے غداری کی کوشش کی تو اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو ان خودغرض، مطلب پرست، عیاش اور ناعاقبت اندیش قائدین کا ہوا۔ اب جبکہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن کر ابھرا ہے، اسلام کا قلعہ ہے، تمام عالم اسلام کے لئے تحفظ اور استحکام کا ذریعہ ہے اور انشاءاللہ پاکستان اسلام کے ضمن میں اپنے فرائض بطریق احسن انجام دے گا۔ 6 ستمبر کا دن ہمارے لئے یوم تجدید عہد غیرت و حمیت کی حیثیت رکھتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن