کچھ ’سیاہ آئینوں ‘پر!

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے راہ نما اور صوبائی وزیرجنابِ منظور وسان نے فرمایا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کا سامان فراہم کرنے کے لیے تمام تانگہ پارٹیوں کا اتحاد تشکیل پا رہا ہے !مگر،پاکستانی عوام اِن انتخابات میں بھی ان تمام تانگہ پارٹیوں کے تمام راہ نماﺅں کی ضمانتیں ضبط کرا دیں گے! اور ان تانگہ پارٹیوں کے راہ نما آئینوں میں بھی اپنا منہ دیکھنا چاہیں گے،تو، وہاں بھی اپنی شکست کا منہ دیکھنے کے سوا کچھ نہیں دیکھ پائیں گے!
جنابِ منظور وسان نے اپنا خواب بیان فرماتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اِن عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائے گی! حتیٰ کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی پاکستان پیپلز پارٹی ہی کا ہو گا! اورمزید کہاکہ عام انتخابات کے نتائج کی سونامی جنابِ عمران خان اور جنابِ شیخ رشید احمد کے لیے یکساں طور پر زلزلہ آگیں ثابت ہو گی! اور اُن کے تمام خواب اُن کی تمام خواہشوں سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت کے سیلاب کے ساتھ سمندر کی طرف بہہ نکلیں گے!
جنابِ منظور وسان نے یہ تمام بشارتیں اوستہ گاہی، خیرپور میں جنابِ دھاریجو کی رہائش پر پارٹی کارکنوں اور نیشنل پریس پینل کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے بیان فرمائیں! انہوں نے جنابِ جاوید ہاشمی کا ذکر کیے بغیر فرمایا کہ جنابِ آصف علی زرداری کے سیاسی مخالفین پر لازم ہے کہ وہ صدرِ مملکت عزت مآب جناب آصف علی زرداری کا اندازِ سیاست سمجھنے کے لیے سیاست کے مضمون میں پوسٹ گریجوایشن کے بعد تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی حاصل کریں! اور تب کہیں جا کے اُن کے بارے میں لب کشائی کریں!
ایک ایسے ہی پی ایچ ڈی مقرب نے راجہ کے عجیب الخلقت بیٹے کی اصل شکل و صورت دیکھ لینے کے بعد اپنے پیٹ میں اُٹھنے والے مروڑ دور کرنے کے لیے راجہ کے محل سے بہت دُور جا کے ایک جنگل میں وہ ’راز‘ایک درخت کے کھوکھلے تنے میں منہ ڈال کر بہت آہستہ سے کہہ دیا تھا، ’راجہ کے بیٹے کے سر پہ دو سینگ!‘ اور پھر کچھ دنوں بعد وہ درخت کٹ کٹا کر سازندوں کے ہاتھ چڑھ گیا تھا! اور اُنہوں نے اس لکڑی سے ایک سارنگی اور ایک طبلے کے لیے موزوں لکڑی ڈھونڈ نکالی تھی! اور جب راجہ کے دربار ی سارنگی نواز نے اس سارنگی پر گز پھیرا تھا،تو، اُس میں سے آواز آئی تھی، ’راجہ کے بیٹے کے سر پہ دو سینگ!‘ ، ’راجہ کے بیٹے کے سر پہ دو سینگ!‘ اور طبلہ نواز نے اس لےَکا ساتھ دینے کے لیے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں چلائی ہی تھیں کہ اُس میں سے آواز آئی، ’کن نے کہا؟‘ ، ’کن نے کہا؟‘ اور پھر جب اُس نے بایاں ہاتھ چلایا،تو، بایاںچلاّ اُٹھا، ’وزیر اعظم نے کہا!‘، وزیر اعظم نے کہا!‘تو، دربار برخاست ہونے سے پہلے پہلے سارنگی نواز اور طبلہ نواز کے ساتھ ساتھ راجہ کے وزیر اعظم بھی سرِ دربار تہ تیغ کیے جا چکے تھے!
ہم نہیں جانتے کہ جنابِ منظور وسان، جنابِ جاوید ہاشمی کے نقشِ قدم پر اور کتنا آگے جا پائیں گے؟ مگر، پنجاب کے پہاڑی علاقوں کی یہ ’لوک کہانی‘ راجہ کے بیٹے کے سر پہ دو سینگ اُگ آنے کی خبر آج بھی عام کرتی چلی آ رہی ہے!
جنابِ آصف علی زرداری اہلِ سیاست کے لیے ایک ’لِونگ لیجینڈ‘ کا درجہ اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں! اور اُن کے چاہنے والے تقریباً اُنہیں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی عادت اپناتے چلے جا رہے ہیں! اور یہ سب لوگ کہتے کچھ ہیں! اور کرتے کچھ ہیں! یہ لَت لگ جانے والے معاشرے ہمارے ہم شکل ہو جاتے ہیں! اورہماری طرح آئینے میں اپنی صورت پہچاننے سے قاصر ہو جاتے ہیں!

ای پیپر دی نیشن