ستمبر1965ءکی سترہ روزہ جنگ کو پیش آئے اگرچہ اڑتالیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور اب تو ہم نے 6 ستمبر کو یوم دفاع پاکستان بھی منانا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اسکے باوجود آج بھی میری طرح کے بے شمار پاکستانیوں کو ستمبر1965ءکے ان سترہ دنوں کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو جنگ ستمبر کا تذکرہ آج بھی دلوں کو گرماتا، جوش و جذبے کو ابھارتا اور ایمان و یقین کو تازہ کرتا ہے۔ آج بھی جنگ ستمبر کی یادیں ایک عجیب کیفیت سے دوچار کرتی ہیں۔ جذبات و احساسات میں ایک تلاطم بپا ہوجاتا ہے۔ خون جوش مارنے لگتا ہے اور قوم و وطن سے محبت کی ایک لہر پورے جسم میں رواں دواں ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ستمبر1965ءکی یہ سترہ روزہ جنگ پاکستان کی بقا اور اسکے وجود کے تحفظ کی ایک ایسی جنگ تھی جس میں ہماری مسلح افواج کے ایک ایک فرد نے جس جرات و دلیری، عزم و حوصلے، ایمان و یقین اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا اسکی نظیر ہماری قومی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ یہ جنگ فی الواقع پوری قوم کے لئے ایک آزمائش تھی ، ایک کڑا امتحان تھاجس میں پوری قوم سرخررو ہوئی اور قوم کے اندر ایسا ولولہ ، ایثار و قربانی کا ایسا جذبہ اور اتحاد و یکجہتی کی ایسی فضا پیدا ہوئی جو نہ پہلے دیکھنے میں آئی تھی اور نہ بعد میں دیکھنے کو ملی۔
پانچ اور چھ ستمبر1965ءکی رات کو بھارت نے واہگہ سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کیا تو اسکا خیال تھا کہ وہ لاہور پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ بھارتی کمانڈر انچیف جنرل چوہدری نے چھ ستمبر کی شام کو جم خانہ کلب لاہور میں فتح کا جشن منانے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی اور اسکی سپاہ23ستمبر کو جنگ بندی کے اعلان تک بی آر بی نہر کے اس کنارے سے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔ جبکہ ہمارے جانباز دلیری، بہادری، جانثاری اور سرفروشی میں اپنی مثال آپ ثابت ہوئے۔
چھ ستمبر کی صبح گیارہ بجے جب صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے دس کروڑ پاکستانیوں کے سینے قرآن کے نور سے منور ہیں تو ان الفاظ میں ایک جادو تھا ، ایک ایسا اثر تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمن کے مقابلے میں متحد ہوگئی اور اس نے ایسی یکجہتی، اتفاق و اتحاد ، عزم و حوصلے اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ لاہور کے محاذ پر چھ ستمبر کو رات کے اندھیرے میں اچانک اور چوری چھپے حملے کی وجہ سے دشمن کو کچھ ابتدائی کامیابی ضرور حاصل ہوئی لیکن اسکے بعد سترہ دنوں تک وہ آگے بڑھنے کی کوشش میں سرپٹختا رہا لیکن بی آر بی نہر کے اس کنارے پر متعین جنرل سرفراز کا دسواں ڈویژن اسکے راستے میں سد سکندری بن کر حائل رہا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن اپنے فرسٹ آرمڈ ڈویژن ”فخر ہند“ کی ٹینک رجمنٹوں کی پوری قوت کے ساتھ اس امید پر حملہ آور ہوا تھا کہ وہ گوجرانوالہ تک ہر چیز کو روندتا ہوا لاہور کے عقب میں جی ٹی روڈ پر جاپہنچے گا لیکن چونڈہ کا میدان اس کے ”فخر ہند“ ڈویژن کے شرمن ٹینکوں کا قبرستان بن گیا۔ اور اسکا آگے بڑھنے کا منصوبہ ایک ڈراﺅنے خواب کا روپ دھار گیا۔ قصور سیکٹر میں ہمارے بکتر بند دستے بھارتی سرحد کے اندر کھیم کرن کے قصبے تک جاپہنچے دشمن نے مادھو پور نہر کا پشتہ توڑ دیا جسکی وجہ سے ہمارے ٹینکوں کی پیش قدمی رک گئی ورنہ فیروز پور تک کا بھارتی علاقہ فتح کرنے سے کوئی ہمیں روک نہیں سکتا تھا۔ راجستھان کے محاذ پر بھی ہماری پیش قدمی جاری رہی اور کھوکھرا پار کے مونا باﺅ ریلوے سٹیشن تک کئی ہزار مربع میل دشمن کا علاقہ ہمارے قبضے میں آگیا۔
ستمبر1965ءکی جنگ میں ہماری فضائیہ اور بحریہ کی کارکردگی بھی ہر لحاظ سے قابل فخر رہی۔ بھارتی فضائیہ کے جیٹ ، مسٹیئر‘ ہنٹر لڑاکا اور کینبرا بمبار طیارے شروع کے ایک دو دن پاکستان کی فضاﺅں میں بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہوئے لیکن سات ستمبر کی صبح سرگودھا کے ہوائی اڈے پر حملہ آور بھارتی طیاروں کو سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم نے اپنے سیبر طیارے کی مشین گنوں کا نشانہ بنایا اور چند سیکنڈ کے وقفے میں پانچ بھارتی حملہ آور طیاروں کو مار گرایا تو پھر بھارتی طیاروں کو دن کی روشنی میں پاکستانی اڈوں کا ر خ کرنے کی جرا¿ت نہ ہوسکی بھارتی فضائیہ کے اہم مراکز پٹھان کوٹ، انبالہ، جام نگر، آدم پوراور ہلواڑہ ہمارے ایف86سیبر، ایف104سٹار فائٹر اور بی 57بمبار طیاروں کا خاص طور پر نشانہ تھے اور ریڈیو پاکستان کے سنئیر نیوز ریڈر شکیل احمد مرحوم جنکا خبریں پڑھنے کا ایک خاص انداز تھا اپنے مخصوص لہجے اور بلند آواز میں خبروں میں جب یہ بتاتے کہ ہمارے شاہینوں نے دشمن کے ہوائی اڈوں ہلواڑہ، آدم پور اور جام نگر پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے ہیں تو ریڈیو کے گرد بیٹھے خبریں سننے والوں کی زبانوں پر بے ساختہ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوجایا کرتے تھے۔
بھارتی بحریہ اگرچہ ہماری بحریہ کے مقابلے میں کئی گنا بڑی تھی لیکن پوری جنگ ستمبر کے دوران اسکے تباہ کن لڑاکا بحری جہاز ہماری واحد آبدوز ”غازی“ کے ڈر سے اپنی گودیوں میں دبکے رہے اور گجرات کاٹھیا واڑہ کے ساحل پرہندﺅو ںکے قدیم اور تاریخی مندر”سومنات“ کے قریب واقع بھارتی بحری اڈہ ”دوارکا“ ہماری بحریہ کا نشانہ بنا اور اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔
جنگ ستمبر کے یہ چیدہ چیدہ واقعات ایسے ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ بھارت جسکی فوجی طاقت اور دیگر وسائل ہمارے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھے جسے اس وقت کی سپر پاور سویت یونین (روس) کی پس پردہ اور کھلم کھلا حمایت حاصل تھی اور جسے 1962ءکی نیفا آسام میں بھارت چین جنگ کے بعد امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک فراخدلی سے ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کی ترسیل جاری رکھے ہوئے تھے اور امریکہ نے پاکستان کو جسکا انحصار ہی امریکی ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان پر تھا ہر طرح کے اسلحے اور فالتو پرزوں کی سپلائی روک دی تھی ان سب باتوں کے باوجود بھارت ہمارے مقابلے میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکا تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہم اگر اس جنگ میں کوئی بڑی فتح حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے تو بھارت ہم سے کہیں بڑھ کر ناکام رہا تھا۔