6 ستمبر.... شہیدوں اور غازیوں کو یاد کرنے کا دن، واہگہ، برکی، ہڈیارہ بارڈر پر رات کے اندھیرے میں پاکستان کی سرحد پار کرنے کی جرا¿ت کرنے والے مکار بنئے کو سبق سکھانے والوں کو یاد کرنے کا دن، چونڈہ میں بھارتی ٹینکوں کی دیوار توڑنے کیلئے سینے پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ جانے والوں کو یاد کرنے کا دن، لاہور کی فضاﺅں میں ایک دوسرے پر جھپٹتے طیاروں کی جھڑپ دیکھنے کیلئے چھتوں پر چڑھ کر نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر بلند کرنے والوں کو یاد کرنے کا دن، بھارتی جرنیلوں کے لاہور جمخانہ کلب میں 6 ستمبر کی شام جشن فتح منانے والوں کے خواب توڑنے والوں کی یاد منانے کا دن۔ 6 ستمبر وہ دن ہے جب 1947ءکے بعد پاکستانی قوم ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی تھی۔ پوری قوم کا ایک ہی نعرہ تھا کہ اس دشمن کو فنا کر دو جس نے رات کی تاریکی میں پاک وطن پر حملہ آور ہونے کی جرا¿ت کی ہے۔ صدر ایوب خان کی ریڈیو پاکستان سے پرجوش تقریر کے بعد ساری قوم پاک فوج کی مدد کیلئے گھروں سے نکل آئی۔ گھروں میں موجود توڑے دار بندوقیں لیکر اور کچھ نہ ملنے پر خالی ہاتھ ہی نوجوان سرحدوں کا رخ کرنے لگے۔
6 ستمبر وہ دن جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی آتے ہیں۔ مگر زندہ قومیں اس دن کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد صرف ان شہیدوں کو یاد کرنا نہیں ہوتا جنہوں نے اپنا کل ہمارے آج کیلئے قربان کر دیا۔ بلکہ قوم کو یہ یاد دلانا بھی ہوتا ہے کہ مکار دشمن ابھی موجود ہے۔ اس سے ہوشیار، خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارا دشمن کوئی اور نہیں وہ ہے جو ہمیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
6 ستمبر کو میدان جنگ میں دانت کھٹے کئے جانے کے بعد بھارتی بنئے نے پالیسی تبدیل کر لی اور چانکیہ کے پیروکاروں نے صرف 6 سال کی قلیل مدت میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔
سقوط ڈھاکہ کسی مسلمان مملکت کو ہونیوالی بدترین شکست تھی۔ جس میں ”اپنوں“ کا بڑا کردار تھا۔ مگر 1971ءکے بعد باقی ماندہ پاکستان کو ”مضبوط“ بنانے کیلئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی اور صرف 15 سال میں پاکستان ایٹمی قوت کہلانے لگا۔ مکار بنئے نے جنگ کی بجائے ثقافتی یلغار کر دی۔ پاکستان کے عوام کو باور کرایا جانے لگا کہ دونوں کا ”کلچر“ ایک ہے۔ ثقافتی یلغار نے وہ کچھ بگاڑا جو 71ءکی جنگ بھی نہیں بگاڑ سکی تھی۔ بھارت کی یہ ثقافتی یلغار آج بھی جاری ہے۔ بھارتی ثقافتی یلغار کا جواب دینے کی بجائے ہمارا فلم اور ٹی وی میڈیا ”بھارتی رنگ“ میں ”رنگا“ گیا ہے۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ 6 ستمبر اور 23 مارچ دو ایسے دن تھے جو قوم کو پاکستان کی حقیقت اور بھارتی بنئے کی مکاری کی یاد تازہ کرا دیتے تھے۔ 23 مارچ کی پاک فوج کی پریڈ پاکستانی قوم میں جذبہ تفاخر پیدا کرتی تھی کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ ہمارے میزائل، طیارے، ٹینک، توپیں بھارت سے برتر ہیں۔ 6 ستمبر کو چھٹی کے ختم کئے جانے سے قوم اس دن کو بھولنے لگی ہے۔ 6 ستمبر کو پہلے سرکاری چھٹی ہوا کرتی تھی۔ لاہور میں ٹاﺅن ہال (جناح ہال) اور سرگودھا میں پرچم استقلال لہرائے جاتے تھے۔ سارا دن ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے جنگی ترانے اور ملی نغمے سنائے جاتے تھے اور قوم کی ”بیٹری چارج“ ہو جاتی تھی۔
آج بھارت خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اس کے تربیت یافتہ دہشت گرد کراچی اور کامرہ میں بھارتی جنگی نقل و حمل پر نظر رکھنے والے پی تھری سی اورین اور ساب طیاروں کو تباہ کر چکے ہیں۔ بھارت مسلسل لائن آف کنٹرول اورورکنگ باﺅنڈری کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے روزانہ بھارتی توپیں، مشین گنیں۔ مارٹر توپیں پاکستان پر گولہ باری کر رہی ہیں، پاک فوج کے کئی جوان اور شہری جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے وزیراعظم بھارت کی کھل کر مذمت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
ان حالات میں 6 ستمبر کی یاد منانا آج بیحد ضروری ہو چکا ہے۔ آج قوم کو پھر وہ جنگی ترانے سنانے کی ضرورت ہے جو خون کو گرما دیتے ہیں۔ پاکستان اس وقت بھی حالت جنگ میں ہے اور ”بھارت“ ہی وہ ازلی دشمن ہے جو ہمارے ”خاتمے“ سے کم پر راضی نہیں ہے جب تک ہم 6 ستمبر مناتے رہیں گے تو بھارت کی مکاریاں اور پاکستان دشمنی میں یاد رہے گی۔
شہیدوں اور غازیوں کو یاد کرنے کا دن
Sep 06, 2013