مومن موت سے نہیں ڈرتا، مومن زندگی سے پیار نہیں کرتا کیونکہ وہ فنا سے بقا کے سفر میں رہتا ہے۔ یہی فرق ہے ایک مومن او ر کافر میں۔ ہماری پاک فوج، بحریہ اور ہمارے فضائیہ شاہین کے جواں حوصلے، پختہ عزم، جذبہ حُب الوطنی، شجاعت و جواں مردی اور بلند کردار ہمارے ناموسِ وطن کی ضامن ہے اور اہل وطن کے لیے باعث فخر ہیں۔ دشمن دن کی روشنی میں پُشت سے وار کر لے یا رات کی تاریکی میں شب خون مارے اُسے یہ جان لینا چاہیے کہ ہمارے جوانوں کی آنکھوں نے سونا نہیں سیکھا۔ سمندر کی لہروں کو چیرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو سر کرتے ہوئے اور سرحدوں پہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہمارے محافظ ناقابلِ تسخیر ہیں۔ اس کا بین ثبوت ہمیں تب ملتا ہے جب 1965ءکی جنگ کا اعلان بھی نہیں ہوتا اور راہوالی کے قریب دشمن کے جہاز حملہ کرنے کو اُترتے ہیں تو سیکنڈ لیفٹیننٹ امجد حسین اپنے ساتھی آفتاب کے ساتھ اُن کی بزدلی کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔۔ بھلا یہ کیا جانیں کہ ....
کس زعم میں تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہ تھا
یہ خاکِ وطن ہے جان اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
پھر سرگودھا میں دشمن نے ایئر فیلڈ کو نشانہ بنایا تو بھی اُن کے جہازوں پہ اس تیزی سے سیکنڈ لیفٹیننٹ امجد حسین نے اٹیک کیا کہ دشمن گھبرا گیا۔ ہمارے غازی مجاہد بجلی کی طرح کوندتے ہیں اور طوفان کی طرح پھیل جاتے ہیں۔ دشمن لرز اُٹھتا ہے اور شکستِ فاش کا سامنا کرتا ہے۔
مجاہد امجد حسین کو اُن کے فضائیہ کارناموں پہ ستارہ¿ امتیاز، ہلالِ امتیاز، ستارہ¿ جرا¿ت اور ہلالِ جرا¿ت دیے گئے۔ آج بھی وہ 1965ءوالا سیکنڈ لیفٹیننٹ ہمارے ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) امجد حسین کے اندر زندہ اور جوان ہے۔ یہ ہے ہمارا شاہین، ہمارا سپاہی ۔۔۔ اس کے بعد ایم ایم عالم نے اپنے بزدل دشمن کے ایسے چھکے چھڑا ئے کہ وہ دم دبا کر بھاگ نکلا اور ہمیں فتح کا جھنڈا لہرانا نصیب ہوا۔
اسی طرح سے میجر جنرل راحت لطیف اور اُن کے ساتھیوں میں ایک جنونی کیفیت پنپ رہی تھی۔ وہ دشمن کے عزائم کو سمجھ چکے تھے۔ دشمن پاکستانی افواج کی رسدکو کاٹنے کے لیے پوری طرح سازش کر چکا تھا۔ اُس نے چونڈہ پر اپنی پوری تیاری کے ساتھ حملہ کر دیا جسے ہمارے بہادر فوجی جوانوں نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ دشمن سٹپٹا گیا اور سیالکوٹ سیکٹر پر ٹینکوں کی ایسی جنگ لڑی گئی کہ گولہ برسانے کا عمل تیزی کے ساتھ جاری رکھا گیا۔ دشمنوں کا یہا ں پر فضائی حملہ تھا جس سے ہماری زمینی فوج پہلی بار نبرد آزما ہو رہی تھی مگر خُدا کی قدرت کہ دشمن کے پھینکے گئے گولے دائیں بائیں گرتے رہے۔ اس جنگ میں اعلیٰ کارکردگی پر میجر جنرل راحت لطیف کو ”ہلالِ امتیاز“ سے بھی نوازا گیا۔ یہاں بات میڈلز کی نہیں بلکہ اُس قیمتی جذبے کی ہے۔ یہ جذبہ کہاں اور کیسے ختم ہوا۔ اپنی افواج کی طرف نگاہ اُٹھتی ہے تو وہ آج بھی اُسی جذبے کے ساتھ سرحدوں پہ سینہ تانے کھڑے نظر آتے ہیں۔ فضا میں ستاروں پر کمند ڈالنے والے آج بھی آشفتہ سر ہیں اور سمندروں کی گہرائیاں ماپنے والے پانی میں آج بھی بجلی کی طرح کوند جاتے ہیں۔ جب جنگ کا اعلان ہوا تو جو غریب غربا عوام الناس تھے سب سرحدوں پر جانے کے لیے تیار تھے ۔۔۔ میڈیا افواج کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے جذبوں کو بھی گرما رہا تھا مگر آج جو ہماری سرحدوں پر کنٹرول لائین کی صورتحال ہے اُس پر بھی میڈیا اُس طرح واویلا نہیں کر رہا جو ان حالات کا متقاضی ہے۔
بات دانشوروں کی ہو تو تجزیہ نگار اور تنقید نگار کے خاکے ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں کہ 6 ستمبر 1965ءکی جنگ میں اُنہیں جو مواد لکھنے کے لیے ملا تو کیا آج بھی وہی تحریر دوبارہ قرطاس پہ بکھیر سکتے ہیں مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے اس کا مطلب وہ لوگ انفرادی، گروہی، قومی اور علاقائی طور پر اقدار اور خیالات بدل چکے ہیں تو آج پھر ہمیں دیانتدارانہ احتساب کی ضرورت ہے جس میں ہم یہ جائزہ لے سکیں کہ معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور نظریاتی اقدار میں کمی کیوں آئی ۔۔۔ آج ہم اپنے اہداف کا تعین کریں۔ اپنی ذمہ دارانہ عمل اور تعاون کے ساتھ وطنِ عزیز کی بقا کے لیے جو ہمارا تشخص ہے آج پھر سے اُسی جذبے، اُسی لگن کے ساتھ ایک ہو کر آگے بڑھیں۔