”شہر گلاسگو--- شہر وفا ہے“

Sep 06, 2013

اثر چوہان

میں اڑھائی دن کے مختصر دورے پر لندن سے اپنے بیٹے سالیسٹر انتصار علی چوہان کو ساتھ لے کر4 ستمبر کو گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے شہر گلاسگو پہنچا تو ریلوے سٹیشن پر”بابائے امن“ ملک غلام ربانی اعوان اور .... ”گلاسگو انٹر کلچرل آرٹس گروپ کے چیئرمین شیخ محمد اشرف منتظر تھے۔ ریلوے سٹیشن سے ہوٹل تک مختصر مسافرت کے دوران دونوں صاحبان کے ہنر سے گویا گفتگو کے چشمے ابل رہے تھے میں ستمبر1981ءمیں سرکاری دورے پر گلاسگو آیا تھا تو اعوان صاحب نے مجھے اپنی قیادت میں گلاسگو دکھایا اور اہل گلاسگو سے ملوایا تھا۔ چودھری محمد سرور سے بھی۔ 32 سال پہلے بھی چودھری صاحب ہردلعزیز تھے۔ اعوان صاحب کی سماجی خدمات کی وجہ سے انہیں اہل گلاسگو نے ”بابائے گلاسگو“ کا خطاب دیا۔
میں اور اسلام آباد کے میرے دوست جناب ظفر بختاوری (ان دنوں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) ستمبر2006ءمیں گلاسگو آئے تو ہمارے گائیڈز ”بابائے گلاسگو“ شیخ محمد اشرف اور گلاسگو کی بہت ہی فعال و متحرک ادبی اور ثقافتی تنظیم ”بزم شعر و نغمہ“ کی چیئرپرسن اور نامور شاعرہ محترمہ راحت زاہد نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا تھا”بابائے گلاسگو کو ملکہ معظمہ برطانیہ کی طرف سے بین المذاہب ہم آہنگی کےلئے نمایاں خدمات انجام دینے پر MBE کا اعزاز ملا تو وہ ”بابائے امن“ کہلاتے ہیں۔ وہ جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں تو ان سے میری تفصیلی ملاقاتیں ہو تی ہیں۔
ہوٹل میں سامان رکھا، کھانا کھایا تو شیخ محمد اشرف اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ”بابائے امن“ نے انہیں حکم دیا کہ ”چودھری محمد سرور کے گھر لے چلو.... اثر چوہان صاحب کو بیگم پروین سرور سے ملوانا ہے“۔ شیخ صاحب نے حکم کی تعمیل کی۔ تھوڑی دیر بعد، ہم سب چودھری محمد سرور کے گھر کے ڈرائنگ روم میں تھے۔ جس وقت بیگم پروین سرور ”بابائے امن“ شیخ محمد اشرف، انتصار علی چوہان اور مجھ سے مخاطب تھیں، چودھری محمد سرور لاہور کے گورنر ہاﺅس میں مصروف کار تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بلوچستان سے مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن شاعر عبدالباقی بلوچ نے لندن میں مقیم اپنی محبوبہ کی یاد میں کہا تھا ....
”سات سمندر پار سہی وہ لیکن باقی دل کا حال
اس ساحل سے ، اس ساحل تک، سب پہنچایا موجوں نے
تین جوان، بیٹیوں، بہوﺅں کی اولاد کے دادا، دادی کہلانے والے چودھری محمد سرور اور بیگم پروین سرور کا یہ مسئلہ نہیں ہے، اس کے باوجود مجھے چودھری صاحب کے گلاسگو کے گھر کے ڈرائنگ روم میں ان کی بیگم، بہو حنا اور ان کے بچوں کے ساتھ بیٹھے عجیب سا لگ رہا تھا۔ مجھے چودھری محمد سرور کی اہلیہ بیگم پروین سرور پر اعتماد اور پرعزم خاتون نظر آئیں۔ حقیقی معنوں میں گورنر پنجاب کیBetter Half میں ان سے مسلسل پنجابی زبان میں گفتگو کر رہا تھا اور وہ انگریزی اور اردو میں۔ کبھی کبھی پنجابی کا ”تڑکا“ لگا کر چودھری محمد سرور اکثر و بیشتر پنجابی بولتے ہیں۔ انگریزی اور اردو محض ”نظریہ ضرورت“ کے تحت۔
گورنر پنجاب کی اہلیہ کی حیثیت سے بیگم پروین سرور روایتی پروٹوکول کے پنجرے میں ”مراعات یافتہ قیدی“ کی طرح نہیں رہنا چاہتیں۔ پنجاب کی خواتین میں پنجاب کی بیٹی اور بہو کی حیثیت سے گھل مل کر رہنا چاہتی ہیں۔ ان کے مسائل جاننا اور حل کرنا چاہتی ہیں۔ بیگم پروین سرور چودھری غلام سرور کی تایا زاد ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ”جب میں گورنر ہاﺅس پہنچی تو سب سے پہلے میں نے رہائشی علاقے میں خدمات انجام دینے والے ملازمین سے کہا کہ آپ سب میرے بھائی اور بیٹے ہیں۔ گورنر ہاﺅس میں آنے والے مردوں، خاص طور پر عورتوں کو سائل نہیں مہمان سمجھیں۔ پھر میں نے وہاں اپنی نگرانی میں صفائی، ستھرائی کرائی اور خواتین کی قرآن خوانی بھی۔ قرآن خوانی کی تقریب میں کوئی سٹیج نہیں بنوایا البتہ میں نے معمر خواتین کے بیٹھنے کےلئے قالینوں پر صوفے بھی رکھوا دیئے تھے“۔
بیگم پروین سرور نے کہا ”اگرچہ یہ چودھری سرور صاحب کا ٹاسک ہے کہ وہ گلاسگو اور برطانیہ کے دوسرے شہروں اور دنیا کے مختلف ملکوں سے اوورسیز پاکستانی اور غیر پاکستانی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کریں لیکن اس معاملے میں، میں بھی اپنی بساط کے مطابق ان کی معاونت کرﺅں گی لیکن میری پہلی ترجیح یہ ہو گی کہ میں پنجاب کی بیٹیوں اور بہوﺅں کو ان کے سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول کا شعور اور احساس دلاﺅں“ ”بابائے امن“ چودھری محمد سرور کے فیملی کے بزرگ ہیں۔ جب ہم ان کے گھر پہنچے اور جب وہاں سے رخصت ہوئے تو بیگم پروین سرور اور ا ن کی بہو چنا نے سر جھکا دیا اور ”بابائے امن نے باری باری ان دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں۔
جب ہم لوگ رخصت ہو کر، گاڑی میں سوار ہوئے تو بابائے امن“ کو چودھری محمد سرور کے سیاسی جانشین، گلاسگو سے برطانوی دارالعلوم کے منتخب رُکن چودھری انس سرور کا ٹیلی فون آ گیا.... بابائے امن نے کہا۔
”انیس پتر! گورنر پنجاب تیرا پیو بنیا اے تے گلاسگو دے لوکاں نے میرے نال جپھیاں پا پا کے میریاں پسلیاں توڑ دتیاں نیں“۔ میرا پیو وی تے تہاڈا ای پتر اے، ہن اپنیاں پسلیاں تڑواﺅ“ چودھری انس نے مجھ سے بھی بات کی اور کہا”مینوں تہاڈے گلاسگو آن نال بہت زیادہ خوشی ہوئی اے انکل! میں کل لندن توں گلاسگو پہنچ جاواں گا“۔
ہم ہوٹل واپس آ گئے تو میرے ایک اور دیرینہ دوست شیخ طاہر انعام منتظر تھے۔ شیخ صاحب بزنس مین ہیں اور گلاسگو کی علمی، ادبی اور ثقافتی محفلوں کے روح رواں، میرے اور میرے بیٹے کے ساتھ ان کا خلوص، ان کی عادت اور روایت کے مطابق امڈ رہا تھا۔ شیخ محمد اشرف نے مجھے بھی بار ہا ”بابا جی“ کہہ کر مخاطب کیا تو ”بابائے امن“ نے مجھے کہا”اثر چوہان صاحب! کیوں نہ میں آپ کو بھی ”گلاسگو کا بابا نمبر دو“ کا خطاب دلوا دوں؟“ تو میں نے کہا کہ میں کسی بھی شہر اور گاﺅں کا بابا بننے کو تیار ہوں لیکن ”دو نمبر“ نہیں پھر میں نے بابائے امن شیخ محمد اشرف اور شیخ طاہر انعام سے بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ۔ ہن تسی سارے میری جان چھڈو تے مینوں آرام کرن دیو پھر انہوں نے میری جان چھوڑ دی حالانکہ دوستوں سے تو زندگی بھر جان نہیں چھوٹتی۔ ابھی مجھے اپنے مرحوم دوست جناب قتیل شفائی کے داماد، عزیزم شوکت بٹ اور ان کی اہلیہ سے بھی ملنا ہے برادرم افضل جگر اور دوسرے کئی دوستوں سے بھی۔ محترمہ راحت زاہد نے کئی بار فون کر کے میری گلاسگو آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور معذرت بھی کی۔ ” آج بے حد مصروفیت ہے کل اور پرسوں ضرور رہے گی“ میں جب بھی گلاسگو آیا جو لوگ بھی ملے، محبت اور خلوص سے ملے۔2006ءمیں شیخ محمد اشرف اور محترمہ راحت زاہد کے حکم پر ”جشن گلاسگو“ میں گائے جانے کےلئے میں نے جو نظم لکھی تھی اس کا ایک بند ہے
لوگ ہیں، اہل مدینہ جیسے
امن و سکوں کا، سفینہ جیسے
سب سے نرالا، سب سے جدا ہے
شہر گلاسگو، شہر وفا ہے

مزیدخبریں