اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا اللہ اکبر، اللہ اکبر…
مہاراج! ایہہ کھیڈ تلوار دی اے جنگ کھیڈ نہیں ہوندی زنانیاں دی
ہماری بہادر پاک افواج نے فلاں محاذ پر اپنے دشمن کو دندان شکن جواب دے کر نہ صرف ان کا حملہ پسپا کر دیا بلکہ دشمن کا اتنا علاقہ فتح کر لیا۔ اتنے طیارے دشمن کے مار گرائے گئے… ریڈیو آن کرتے ہی کانوں میں ولولہ انگیز نغمے ترانے اور فتح کی تازہ بتازہ خبریں طبیعت خوش کر دیتیں۔ انتہائی نوعمری وکم سنی کے باوجود ہم بچوں کو بڑوں سے زیادہ لگن دلچسپی اپنے ملک کی بقا اور فتح میں تھی۔ قوم کا مورال اس قدر بلند کہ شدید جنگ کے باوجود کسی قسم کا خوف و ہراس نظر نہ آیا تھا بلکہ حکومت کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اپیلیں کرنا پڑتیں کہ دشمن کے جہازوں کو دیکھ کر چھتوں پر چڑھ کر نظارہ کرنے کی بجائے مورچوں میں چلے جایا کریں اور رات مکمل بلیک آئوٹ کیا کریں۔ دفاعی فنڈ کی حکومتی اپیل پر عوام نے اس قدر دل کھول کر حصہ لیا کہ حکومت کو مالا مال کر دیا۔ ہماری بہادر افواج ہی نہیں بلکہ قوم بھی پیارے وطن کے دفاع کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن گئی رات کی تاریکی میں مکار دشمن نے اپنی طاقت کے گھمنڈ اور یقینی فتح کے نشہ میں بدمست یہ دعوی کیا تھا کہ وہ تھوڑی ہی دیر میں جم خانہ کلب لاہور میں چائے پیئں گے۔ اسے علم نہیں تھا کہ جذبہ ایمان سے سرشار اس سپاہ مصطفیؐ سے پالا پڑا ہے جو تعداد و اسلحہ کی طاقت سے بے نیاز موت کو شہادت سمجھ کر اس کی آرزو لئے لڑتے نہیں۔
ابھی تک پاکستان کی عمر اٹھارہ سال تھی اور یہ پوری طرح سے اپنے پائوں پر کھڑا بھی نہیں ہوا تھا کہ 6 ستمبر 1965 کو مکار دشمن نے رات کی تاریکی میں اسے ہٹانے کیلئے حملہ کیا تھا لیکن اگر اقوام متحدہ مداخلت نہ کرتی تو دنیا دیکھتی کہ اسکے دشمنوں کا حشر کیا ہوتا۔ اپنی سے چھ گنا بڑی طاقت کو شکست فاش دینے والی اپنی غیور بہادر فوج کے سنہری کارناموں کی یادوں کو تازہ کرتے اور شہدائے وطن کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہم اس روز کو ’’یوم دفاع پاکستان‘‘ کے طور پر مناتے ہیں کہ یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عظیم فتح اور قوم کے بے مثال جذبہ نے اسلام دشمنوں اور باطل قوتوں کی توجہ پاکستان کی طرف کروا لی کہ اسلام کا قلعہ تو پاکستان ہے یہ مستقبل میں طاغوت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا ایک عالمی سازش کے تحت اسے دولخت کر دیا گیا اور داخلی سطح پر اپنی سازشوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہئے اس ایمانی، علمی، معاشی، سیاسی ہر طرح کی قوت کو نشانہ بنانا اپنا عزم بنا لیا۔ یہ داخلی جنگ جو نظر نہ آنے والی جنگ ہے زور شور سے جاری ہے اور خطرناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے۔
آئیے! اب کے یوم دفاع کو یوم محاسبہ بنا کر اپنے سے سوال کرتے ہیں کہ احتساب بھی قوموں کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ تاکہ اپنی صفوں میں گھسے دوست نما دشمنوں کا سراغ لگا سکیں۔
65ء کی جنگ سے زیادہ پاکستانی قوم میں 14 اگست جشن آزادی سے آج تک خوف وہراس نہیں پایا گیا؟ ان مذموم مقاصد کے لئے جشن آزادی ہی کو احتجاجی رنگ کن قوتوں نے دلایا؟ کیا ہمارا میڈیا وہی معیاروکردار پیش کر رہا ہے جو 65 کی خارجی جنگ میں پیش کیا؟ ہمارے دانشور صحافی سیاست دان اس معمولی سیاسی تنازعہ کو بھی بطریق احسن فوری حل کرنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟ سوائے مرد مجاہد! جاگ ذرا اور ان جیسے کئی سوالوں کا جواب اور حل تلاش کرتا کہ ہم اپنی فتح کے شادیانے یونہی بجاتے رہیں۔ (آمین)