میں پاگل ہوں بے وقوف نہیں ہوں

احسن اقبال کی شعلہ بیانی قومی اسمبلی میں بہت پسند کی گئی۔ یہ بھی بیان بازی کی طرح کی کوئی چیز ہے۔ اس سے پہلے اعتزاز احسن اور جاوید ہاشمی کی تقریر زبردست تھی۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برس رہے تھے ارکان اسمبلی خوب ڈیسک بجا رہے تھے۔ صرف یہی ان کا کام رہ گیا ہے تو پھر باہر دھرنے والوں اور ان میں کیا فرق ہے۔ وہاں تقریریں کم ہیں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں مقررین اور حاضرین ایک ہیں۔ سب حاضرین مقررین بھی ہیں۔ پارلیمنٹ جلسہ عام کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ نشستند و گفتند و برخاستند کے علاوہ ان کا کیا کردار ہے۔ عملی کام نہ اندر والوں نے کبھی کیا ہے نہ باہر والوں نے کیا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بھی یہی ہو رہا ہے۔ دونوں جگہوں پر فوج کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ کچھ بڑے صحافی بھی بہت بے قرار ہیں کہ انہوں نے پیسے پورے کرنا ہیں۔ اعتزاز کے پیچھے کون ہے۔ چودھری نثار کو فیلڈ مارشل کیوں کہا گیا ہے۔ ہر شخص پر یہ الزام ہے کہ وہ کسی کے اشارے پر سے کچھ کر رہا ہے۔ سیاستدان ممبران اسمبلی اور وزیر شذیر خود کچھ نہیں ہیں۔ کوئی ان کی ڈور ہلا رہا ہے۔ کوئی پیغام آتا ہے اور یہ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ پہلے ایجنسیوں کے لوگ چھپتے پھرتے تھے۔ اب کھلم کھلا کہتے ہیں کہ میں ایجنسیوں کا آدمی ہوں۔ بیرونی ہاتھ کام دکھا رہا ہے۔ اندرونی طور پر مقتدر طاقت سیاستدانوں کو ہانک رہی ہے تو یہ لوگ خود کیا ہیں۔
عمران نے بار بار ایمپائر کا ذکر کیا ہے تو ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ یہ ایمپائر کون ہے۔ کرکٹ کے میدان میں بھی ایمپائر کی بات عمران خان کرتا تھا اب بھی کر رہا ہے۔ تب عمران نیوٹرل ایمپائر کے حق میں تھا اب شاید نہیں ہے کہ ایک بار بھی اس نے نیوٹرل ایمپائر کی بات نہیں کی۔ اب ایمپائر جو انگلی اٹھائے گا وہ کسی دوسرے کے آئوٹ ہونے کے لئے ہو گی۔ عمران تو بائولنگ کرا رہا ہے۔ ایک گیند سے دو آئوٹ کرنے کا اعلان کرتا ہے تو یہ دوسرا کون ہے؟ بائولر تو آئوٹ نہیں ہوتا مگر حکومتی کرکٹر کو آئوٹ کرنے کی اپیل اب نہیں ہوتی یہ تو گیٹ آئوٹ کرنے یا کرانے کی دھمکی ہے۔ کیچ آئوٹ اور رن آئوٹ ہونے کا امکان نہیں ہے کہ اب رن آئوٹ تو عمران خان کرکٹ کے علاوہ کسی اور کھیل میں ہوتا ہے۔ یہ بات سب سیاستدان حکمرانوں کے لئے کہی جا سکتی ہے۔ اس میں حکومت اور اپوزیشن کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اب آئوٹ ہونے کی بات بھی نہیں ہے اب تو سیدھا سیدھا گیٹ آئوٹ ہونے کی بات ہے۔ عمران کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ خود کسی کو گیٹ آئوٹ کرے۔ اب اسے ایمپائر کی ضرورت ہے مگر ایمپائر نیوٹرل ہو چکا ہے۔ وہ انگلی ہی کھڑی نہیں کر رہا۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی بہت دردمند آدمی ہیں۔ وہ بلوچستان کے لئے بھی پاکستان کی طرح سوچتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ کوئی بلوچستان کو پاکستان سے الگ نہیں کر سکتا۔ بلوچستان خدانخواستہ الگ ہوا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے۔ یہ ایک عظیم بلوچی سیاستدان کی سوچ ہے جو سچا اور بڑا پاکستانی بھی ہے۔
چیف آف باروزئی قبیلہ نواب غوث بخش کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کو بیرونی ہاتھ کی رٹ نہیں لگانا چاہئے۔ سیاستدانوں کو رٹو طوطا نہیں بننا چاہئے۔ اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہئے۔ حکومت کو اپنی رٹ بحال کرنا چاہئے۔ ہمیں بیرونی طاقت سے خطرہ ہو بھی تو کوئی ڈر خطرہ نہیں ہے۔ ہماری بہادر فوج پاکستان پر آنچ نہیں آنے  دے گی۔ اندرونی طور پر ہمیں مضبوط اور محب وطن ہونا چاہئے یہاں بھی ہم پاک فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے مسئلے خود کیوں حل نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں اگر انتخابات صاف شفاف ہو جائیں۔ ملک و قوم کے لئے فیصلے کرنے والے حکمران نیک نیت اور نیک دل ہو جائیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ باروزئی صاحب نے کہا کہ بدقسمتی سے ہر انتخاب پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اقتدار تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امانت ہے۔ ہم نے اس امانت میں خیانت کی ہے۔ خلق خدا نے بھی انتخاب پر شکوک و شبہات کئے ہیں۔ سیاستدانوں نے بھی اس حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے ہیں۔ اس طرح ہماری کریڈیبلٹی مشکوک ہو گئی۔ اب سب سے پہلے انتخابات کے شفاف ہونے کے لئے کمشن بنایا جائے۔ ایسا طریق کار اور قوانین بنائے جائیں کہ ان پر کوئی نکتہ چینی اور انگشت نمائی نہ کر سکے۔ انتخابات پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو پھر ایمپائر کی انگلی اٹھانے کے لئے انتظار کیا جاتا ہے۔ ہر شخص آج کل فوج پر الزام لگاتا ہے۔ سیاستدان آپس میں اقتدار کے لئے لڑتے ہیں اور بدنام فوج کو کیا جاتا ہے جبکہ جنرل راحیل نے بار بار سیاستدانوں کو خود اپنے مسئلے حل کرنے کے لئے کہا ہے۔
پارلیمنٹ میں بھی محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن اور دوسرے کئی ممبران نے کھلم کھلا فوج پر تنقید کی ہے۔ بات ایک دوسرے کے خلاف ہو تو بھی فوج ذمہ دار ہے۔ اعتزاز احسن نے مثبت انداز میں مخالفت کی۔ اس سے پہلے پوری حمایت کا یقین دلایا تو بھی چودھری نثار نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ وہ کس کے اشارے پر بول رہا ہے۔ یہ بات کسی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے اور کہی جاتی ہے۔ چودھری نثار کے لئے خود اپنی جماعت کے لوگ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں عمران ان کا مخالف بھی ہے اور دوست بھی ہے چودھری نثار کہتے ہیں کہ میں دوستی بھی نبھاؤں گا اور فرض بھی پورا کروںگا۔ عمران اس پر راضی تھا کہ نواز شریف اپنی جماعت میں سے کسی کو یعنی چودھری نثار کو وزیراعظم بنا دیں۔ اگر اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنایا گیا تو یہ خاندانی حکومت کا تسلسل ہو گا۔
سیاستدان اشاروں کی زبان خوب سمجھتے ہیں انہیں جب اشارہ ہوتا ہے تو دوسرے بھی سمجھ لیتے ہیں بیان بازی کے ساتھ ساتھ اشارہ بازی بھی سیاست کا لازمی حصہ ہو گیا ہے۔ الزام بازی بھی اسی میں سے پھوٹتی ہے۔
احسن اقبال نے تقریر بازی کے دوران عمران سے تعاون کی اپیل کی کہ اسلام آباد میں بھی کینسر ہسپتال بنایا جائے۔ میری تجویز ہے کہ اس کا نام آپا نثار فاطمہ ہسپتال ہونا چاہئے۔ مگر اندیشہ ہے کہ چودھری نثار ناراض ہوں گے کہ مجھے آپا کیوں کہا گیا ہے پچھلی نشستوں پر بیھٹے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایک مینٹل ہسپتال بھی بنائیں۔ اس پر قہقہہ ایوان میں پھیلتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ کو ایوان کہنا بھی غلط ہے پارلیمنٹ میں قہقہے گونجتے رہتے ہیں اور تالیاں یعنی ڈیسک بجتے رہتے ہیں۔
اسلام آباد کے مینٹل ہسپتال میں داخل ہونے کی مولانا کی خواہش عمران کے لئے ہے۔ خود مولانا بھی اس ہسپتال کی رونق بڑھانے کے لئے بہت محنت کر رہے ہیں۔ ان کی مراد یہ ہے کہ ہم پاگل نہیں ہیں۔ ہم بہت سیانے ہیں۔ دیوانے بکار خوش ہشیار۔ اور حکمران بہت ہشیار لوگ ہیں عقل مند لوگ ہیں۔ اپنا نقصان نہیں ہونے دیتے۔ ایک سیاستدان سے کہا گیا کہ اس معاملے میں کمپرومائز اچھا نہیں ہے کہ ہم کمٹمنٹ کر چکے ہیں۔ یہ ہماری عزت بے عزتی کا مسئلہ ہے۔ سیاستدان صاحب نے کہا کے اوئے عزت بے عزتی کہاں سے نکل آئی ہے۔ ان کاموں میں صرف نفع نقصان دیکھا جاتا ہے۔ تو سیاستدان بہت سیانے ہوتے ہیں۔ پاگل نہیں ہوتے جبکہ دنیا میں بڑے کام اور قربانیاں ان لوگوں کی ہیں جو کچھ سر پھرے اور پاگل ہوتے ہیں نارمل آدمی تو دو اور دو چار کی طرح زندگی گزار کر مر جاتے ہیں۔
ایک مینٹل ہسپتال کی کھڑکی میں ایک پاگل کھڑا تھا۔ سامنے سڑک پر ایک آدمی کی کار کا  ایک پہیہ اکھڑ گیا تھا وہ پریشان کھڑا تھا کہ پہیے کے نٹ گم ہو گئے تھے۔ پاگل نے اسے کہا کہ گاڑی کے تینوں پہیوں میں سے ایک ایک نٹ نکال کے چوتھے پہیے میں ڈال لو اور آگے جا کے ہر پہیے کے نٹ پورے کر لینا۔ اس نے حیران ہو کے اسے دیکھا کہ تم مینٹل ہسپتال میں ہو؟ اس نے کہا کہ میں پاگل ہوں بے وقوف نہیں ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...