اسلام آباد (بی بی سی) پاکستان عوامی تحریک کا ’انقلاب مارچ‘ طویل ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر کرائے پر لائے جانے والے افراد اب اپنے گھروں کو جانے کے منتظر ہیں لیکن اْن کا کہنا ہے کہ اْنہیں گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ ایسے ہی سینکڑوں افراد میں بہاولپور کا رہائشی نوید بھی شامل ہے۔ اس لڑکے کا نام تو کچھ اور ہے تاہم اْس کی سکیورٹی کے لیے اسے نوید کے ایک فرضی نام سے لکھا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نوید کا کہنا تھا کہ وہ بہاولپور کے قریب ایک گاؤں ٹامے والی کا رہائشی ہے اور دسویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اْس لڑکے کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک کے مقامی عہدیدار تنویر عباسی نے اْن کے گھر والوں کو بتایا کہ اْن کا بیٹا انقلاب مارچ میں شرکت کے لیے اسلام آباد جا رہا ہے اور وہ تین روز کے بعد واپس آجائے گا۔ نوید کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک کے مقامی عہدیداروں نے اْن کے گھر والوں کو چھ ہزار روپے بھی دیئے جو اْنہوں نے بخوشی قبول کر لیے۔ اْس نے کہا کہ اس کے علاقے اور قریبی گاؤں سے 300 کے قریب زیر تعلیم نو عمر لڑکوں کو انہی شرائط پر اسلام آباد لایا گیا ہے۔ اس لڑکے کا کہنا تھا کہ 20، 20 لڑکوں پر مشتمل بٹالین بنائی گئی ہیں اور ہر بٹالین کا انچارج روزانہ انقلاب مارچ کی انتظامیہ کو لڑکوں کی حاضری کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ نوید کا کہنا تھا کہ جو لڑکے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہوئے ہیں اْنہیں بھی اپنے گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اْنہیں قریبی علاقوں میں ہی رکھا ہوا ہے۔ اس لڑکے کے بقول اْنہیں 21 روز اسلام آباد میں ہوگئے ہیں اور جب وہ اپنے عہدیداروں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں تو اْنہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد کے بس سٹینڈ پر اْن کے بندے کھڑے ہیں جو اْنہیں گھر جانے کی بجائے ’اگلے جہاں‘ پہنچا دیں گے اور اْن کے گھر والوں کو بتا دیں گے کہ وہ پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں جہاں پر اکثر خواتین گھروں میں کام کرکے گْزارا کرتی ہیں وہاں سے بھی اطلاعات کے مطابق 100 کے قریب خواتین کو اس ’انقلاب مارچ‘ میں لایا گیا ہے اور اْن کے گھر والوں کو دس ہزار روپے مہینے کے حساب سے دیے گئے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عمر ریاض عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اس وقت انقلابی دھرنے میں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں وہ اپنی مرضی سے بیٹھے ہیں اور اْنہیں نہ تو مجبور کیا گیا اور نہ ہی اْنہیں کوئی پیسے دیے گئے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کے حکم پر آٹھ سو کے قریب ایسے مظاہرین اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں جن کے امتحانات ہیں یا پھر اْنہیں نوکری اور کاروبار کے مسائل ہیں۔